گوادروہ ساحلی علاقہ ہے جسے مکران کے گچکی سرداروں نے امانت کے طور پر عمّان کے شہزادے سعید کو اس وقت واپسی کی شرط پر بخش دیا تھا جب وہ اقتدار کی کشمکش میں جلا وطن تھا۔ جب یہ گوادر1958ء میں پاکستان میں شامل ہوا تو وہاں پر رہنے والے صرف بیس ہزار افراد کی خوشی دیدنی تھی۔ وفاقی سیکرٹری کیبنٹ آغا عبد الحمید کراچی سے بحری جہاز پر جب گوادر پہنچے تووہاں پر موجود ماہی گیر اپنی کشتیاں لیکر جہاز کا استقبال کرنے گہرے سمندر میںگئے اور مچھیروں نے سمندر میں تیرتے ہوئے آغا عبد الحمید کے جہاز کو جلوس کی صورت ساحل تک پہنچایا۔ شہر میں ایک سرخوشی کا عالم تھا۔ لوگ عمّان کے نمائندے کے گھر تک پرجوش رقصاں ایک جلوس کی صورت پہنچے۔ دستاویزات پیش ہوئیں اور وہاں پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ مکران، لسبیلہ اور خاران کے سرداروں اور انکے عوام کی پاکستان سے محبت کا اظہار 1947ء میں اس وقت ہوا تھا جب خان آف قلّات، جو انہی تین ریاستوں سمیت ساراوان جھالاران کے علاقوں کا مشترکہ سربراہ تھا، اس نے پاکستان میںشمولیت کے اعلان سے ذرا پس و پیش کیا تو ان تینوں ریاستوں نے پاکستان سے اپنے الحاق کا اعلان کر دیا۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی جس میں گوادر، اوماڑہ، پسنی اور جیونی کے شہر آتے ہیں، مدتوں سے ایک قدیم سادہ زندگی کی علامت رہی ہے، جس کی آبادی کا واحد ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ سمندر چونکہ ایک عالمی حدود رکھتا ہے، اس لئے ماہی گیروں کیلئے مچھلی پکڑنے کا ایک علاقہ متعین کیا جاتا ہے۔ حکومتِ مغربی پاکستان نے یہ علاقہ تین ناٹیکل میل مقرر کیا تھا جسے 1971ء میں قائم ہونے والے صوبہ بلوچستان کی حکومت نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے بعد سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کا لائسنس وفاقی حکومت دیا کرتی تھی۔ حکومتِ بلوچستان نے 1987ء میں اپنی حدود کو بڑھا کر بارہ ناٹیکل میل کر دیا۔ ایک ناٹیکل میل تقریباً 1860میٹر یعنی تقریباً دو کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ پاکستان کی عالمی سمندری حدود دو سو ناٹیکل میل ہے۔ اس وقت 12ناٹیکل میل تک ماہی گیری صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے، جبکہ 12سے 20تک دوسرے زون اور 20سے 200ناٹیکل میل تک تیسرے زون میںوفاقی حکومت کو اختیار حاصل ہے۔ بلوچستان کا سمندر 770 کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ جب کہ سندھ کا سمندر 348کلومیٹر لمبا ہے۔ بلوچستان کے ماہی گیروں کی کل پانچ ہزار کشتیاں رجسٹرڈ ہیں۔ یہ کشتیاں سمندر میں زیادہ دور نہیں جا سکتیں اور ان کے جال بھی قدیم طرز کے ہوتے ہیں، جن سے سمندر میں موجود چھوٹی مچھلیاں یا ان کے انڈے وغیرہ محفوظ رہتے ہیں۔ مچھلیوں کی افزائش کیلئے 1980ء سے ایک قانون بھی نافذ ہے کہ یکم جون سے 31جولائی تک کسی قسم کا شکار نہیں ہوگا، کیونکہ ان مہینوں میں مچھلیاں اور دیگر آبی حیات انڈے دیتی ہے اور ان کے بچے ذرا جوان ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی یہ دو ماہ ختم ہوتے ہیں، سندھ سے ٹرالر بلوچستان کے ساحل کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ سندھ کے اپنے ساحل کا عالم یہ ہے کہ اسے ان ٹرالروں نے مکمل طور پر برباد کر دیا ہے۔یہ ایک ایسا مشینی جال لگاتے ہیں جسے ’’گجو نیٹ‘‘ کہا جاتا ہے جو سمندر کی تہہ سے انڈے بچے سب کھینچ لاتا ہے، مناسب مچھلی رکھ لی جاتی ہے اور مردہ مچھلی اور انڈے واپس سمندر میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ سمندری حیات نے اس خوفناک مہم سے ڈرتے ہوئے اپنے ٹھکانے بلوچستان اور بھارت کی طرف بنا لئے ہیں۔ بھارت کی جانب کوئی جاتا نہیں کیونکہ ذراسی غلطی بھی انہیںبھارت کی قید میں لے جا سکتی ہے۔ ان ٹرالروںمیں سے کوئی ایک ٹرالر بھی بلوچستان کا نہیں ہے۔ اب وہ کھیل شروع ہوتا ہے جو بلوچستان کے صوبائی ہیڈ کوارٹر کے سیکرٹریٹ سے کراچی کی بلوچ آبادی لیاری تک پھیلا ہوا ہے۔ جس ٹرالر کو بلوچستان کے ساحل کے بارہ کلومیٹر میں ماہی گیری کرنا ہوتی ہے وہ لیاری میں بیٹھے ایجنٹوں سے رابطہ کرتا ہے، جو اسے صوبائی محکمۂ ماہی گیری سے این او سی لے کر دیتے ہیں۔ گوادر کے ماہی گیروں کا یہ احتجاج تقریباً تیس سال سے جاری ہے۔ وہ اس بارہ ناٹیکل میل کے سمندر کو اپنا رزق سمجھتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ اگر یہ ٹرالر یہاں چلتے رہے تو ایک دن یہ ساحل بھی سندھ کی طرح آبی حیات سے محروم ہو جائے گا اور جیسے سندھ کے ساحلوں پر مچھیروں کے گاؤں تو ہیں لیکن مچھلی پکڑنے والے معدوم ہو چکے ہیں ویسا ہی حال بلوچستان کا ہوگا۔ بارہ ناٹیکل میل کے بعد سمندر اتنا گہرا اور شوریدہ ہوجاتا ہے کہ وہاں پر مچھلی پکڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اسی لئے وفاقی حکومت نے اب تک اپنے علاقے میں ٹرالر کا کوئی لائسنس یا این او سی جاری نہیں کیا۔ گوادر کے ماہی گیروں کو خوب علم ہے کہ ٹرالر والے پورے پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سمندر ی حدود بلوچستان حکومت کی ہے اورٹرالروںکو این اور سی دینے والے وہ وزراء ہیںجو گوادر کے نام پر ’’ساحل وو سائل‘‘ کی نام نہاد جنگ لڑتے ہیں۔ بلوچستان پر حکومت کوئی بھی رہی ہو، آج تک کسی نے ٹرالروں کو لائسنس منسوخ کرکے اپنی مستقل جائز و ناجائز آمدنی سے ہاتھ دھونا گوارا نہیں کیا۔ گوادر، پسنی، اوماڑہ اور جیونی کے عوام کو خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو لیڈر گذشتہ تیس سالوں سے ٹرالروں کا استحصال نہیں روک سکے، ان کے ہاتھ اگر گوادر کا مستقبل آگیا تو وہ اسے اونے پونے داموں بیچ ڈالیں گے۔ یہ تاثر میں نے اس وقت محسوس کیا تھا جب 2000ء میں گوادر پورٹ پر کام شروع ہوا ۔ ان دنوں میں کئی دفعہ وہاں گیا۔ گوادر کے واحد سمندری پہاڑ ’’کوہِ باتیل‘‘پر سنگھا ر ہاوسنگ سکیم بن چکی تھی۔ ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی تھا۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر بھی قائم ہوچکے تھے۔ سنگھار ہاؤسنگ میں کون تھا جس نے پلاٹ حاصل نہ کئے ہوں۔ دونوں وزرائے اعظم بے نظیر اور نواز شریف تک کے بھی کئی پلاٹ تھے۔ بار بار وہاں جانے اور گوادر کی مقامی آبادی سے گفتگو کرنے کے بعد یہ تاثر ملا کہ پورے ملک کے پراپرٹی ڈیلر گِدھوں کی طرح گوادر پر حملہ آور ہو چکے ہیں اور وہ مقامی افراد سے زمینوں کا سودا کررہے ہیں۔ مشرف دور تھا، ایک نعرہ بلند ہوا کہ بلوچستان کی آبادی کو ریڈ انڈین بنایا جا رہا ہے۔ نعروں کی گونج میں خریدوفروخت بہت کم ہو گئی۔ پورے ملک میں لگے پراپرٹی کے بورڈ بھی اتر گئے۔ اس دوران وہاں بلوچستان کے دیگر علاقوں کے رہنے والوںنے خرید و فروخت شروع کی تو گوادر کی مقامی آبادی میں یہ بھنبھناہٹ شروع ہوئی کہ یہ استحصال کا نعرہ دراصل اس لئے لگایا تھا کہ یہاں کوئی باہر سے نہ آئے اور ہم یہ زمینیں سستے داموں خرید کر ملک بھر کے پراپرٹی ڈیلروں کو فروخت کریں۔ مقامی افراد کا یہ خوف بالکل سچ ثابت ہوا۔ ان حالات میں گوادر کے مقامی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ ان تمام رہنماؤں کے نزدیک سمندر میں موجود ایک مچھلی کی طرح ہیں جس پر قبضے کیلئے صوبائی ، وفاقی اور عالمی طاقتوں کی جنگ جاری ہے۔ سب نے اپنے جال بچھا رکھے ہیں۔ ایسے میں وہ اگر آج خود نہ اٹھے تو کوئی ان کے حقوق کیلئے نہیں اٹھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ یہ پہلی عوامی تحریک جو بلوچستان کی قوم پرست سیاست سے بھی دور رہی اور انہوں نے قوم پرست لیڈروں کو اپنا پرچم نہیں اٹھانے دیا۔ جماعتِ اسلامی کا پروردہ اور مذہبی شخصیت مولانا ہدایت الرحمٰن اس تحریک کا پرچم بردار بن کر اٹھا۔ وہ ایک مقامی تھا اوراس کا جینا مرنا ان ماہی گیروں سے وابستہ تھا۔ وہ عالمی سیاست جانتا تھا نہ علاقائی کشمکش۔ 15نومبر سے دھرنا شروع ہوا اور اس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ ایک ماہ کے دھرنے کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ وہی مطالبات تسلیم کیئے گئے ہیں جن کا سو فیصد تعلق گوادر کی مقامی آبادی سے ہے۔ پہلی دفعہ خوفناک حد تک آبی حیات کی دشمن ماہی گیری کے خاتمے کے بارے میں سوچا گیا ہے۔ وہ غیرضروری چیک پوسٹیں جو گوادر کے عوام کی عزتِ نفس مجروح کرتی تھیں ان کے خاتمے کا وعدہ ہوا ہے۔ گوادر کی اس تحریک کا ایک ہی سبق ہے۔ اگر عوام اپنے مفاد کیلئے متحد ہو جائیں تو پھر کوئی قومی، صوبائی، علاقائی یا نسلی لیڈر ان کے مفاد کا سودا نہیں کر سکتا۔(ختم شد)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز