کوئی سبق نہیں سیکھا۔۔۔۔تحریر نوید چودھری


دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک اپنے قیام کے صرف 24 سال بعد ہی ٹوٹ کر دو حصوں میں بٹ گیا ۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر آج معاشی ترقی کی رفتار میں پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ ہمارے ہاں ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کا اول تو ذکر ہی نہ ہو اور جہاں کہیں بات کرنا ناگزیر ہو جائے وہاں خود کو مکمل طور پر معصوم ظاہر کرکے سارا ملبہ بیرونی دشمنوں پر ڈال دیا جائے ۔ سانحہ پیش آنے کے بعد سے اب تک اس حوالے سے جو بیانئے تشکیل دے کر حقائق کو گم کرنے کی جو کو ششیں کی جاتی رہی ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہو سکیں ۔ چند ایک نکات ایسے ہیں جو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کئے جاسکتے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے 16 دسمبر 1971 فوجی شکست کا نتیجہ تھا۔ اگر ہماری دفاعی قوت ناقابل تسخیر ہوتی تو نہ صرف بھارت سمیت کسی دوسرے ملک کو مداخلت کی جرات ہوتی اور نہ ہی مشرقی پاکستان میں موجود شرپسند سر اٹھا سکتے ۔ 1971 کی جنگ کے حوالے سے بہادری کے جتنے بھی واقعات بیان کئے جائیں یہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ ہمیں بدترین ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے اثرات کم کرنے کے لئے خصوصا جنرل مشرف کے دور سے دیگر کئی دعووں کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے جنگی قیدی 90 ہزار نہیں تھے بلکہ یہ تعداد 34 اور بعض کے مطابق 45 ہزار تھی ۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں مناسب تعداد میں فوج رکھنا کیاامریکا یا چین کی ذمہ داری تھی ؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ بہت ہی بڑی کوتاہی بلکہ جرم ہے ۔ ابھی چند روز قبل اس حوالے ایک امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہماری تین ڈویژن فوج ہوتی تو لڑائی کا نتیجہ ہمارے حق میں نکلتا ۔ جنرل لودھی کے بقول حالات ہی ایسے بن گئے تھے کہ ہماری جتنی بھی فوج وہاں موجود ہوتی سب کے سب پکڑ لئے جاتے ۔ اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل( ر) غلام مصطفی نے کہا کہ ہم جنرل نیازی کی جگہ نپولین بونا پارٹ کو بھی لے آتے تو ہار جاتے ۔ دوسری بڑی وجہ مقامی آبادی کے اندر پیدا ہونے والے تاثرات تھے کہ ان کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جارہا۔ وہ سب یہ محسوس کررہے تھے کہ اقتدار ہی نہیں وسائل پر بھی مغربی پاکستان کا قبضہ ہے ۔ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ کبھی اپنے حقوق حاصل نہیں کر پائیں گے ۔ تیسری بڑی وجہ یہ تھی کہ عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے باوجود مارشل لا حکومت کے سربراہ جنرل یحیی خان اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے ۔ ان کی یہ ہٹ دھرمی اس قدر زیادہ تھی کہ ملک ٹوٹنے کے بعد بھی باقی ماندہ پاکستان میں اپنی صدارت جاری رکھنے کی تیاری کررہے تھے ۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو تھے جو مغربی پاکستان میں 138 میں سے 81 نشستیں جیت کر اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار نہ تھے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان میں ایک بھی امیدوار کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی ۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں میں 162 میں سے 160 نشتیں جیت کر زبردست معرکہ مارا ۔ مگر ان کی عوامی لیگ مغربی پاکستان میں ایک سیٹ بھی حاصل نہ کرسکی تھی ۔ سو کسی بھی آئینی ، قانونی اور انتخابی اصول کے مطابق شیخ مجیب الرحمن اور ان کی جماعت کو حکومت سے باہر رکھنے کا کوئی جواز ہی موجود نہیں تھا ۔ ان حالات میں مشرقی پاکستان کی آبادی کی غالب اکثریت کو یقین ہو چکا تھا کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت ہے نہ ہی مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے گا ۔ اب رہ گئی بات بھارتی مداخلت کی تو یہ سوچا ہی کیوں گیا کہ دشمن ہمیں شاخ زیتون پیش کرے گا ۔ ظاہر مخالف قوتوں نے ایسے ہی مواقع پر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے ہوتے ہیں ۔ بھارت نے نہ صرف جنگ چھڑی بلکہ پراپیگنڈہ کے محاذ پر بھی بہت جھوٹ پھیلایا مگر ہماری قیادت اس کا توڑ کرنے میں بھی ناکام رہی ۔ کئی غیرملکی تجزیہ کار بھی مانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کے دوران شہری ہلاکتوں اور عصمت دری کے واقعات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ۔ بنگلہ دیش والے اپنا یوم آزادی 16 دسمبر کو مناتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان کے مطابق یہ آزادی پاکستان سے حاصل کی گئی ۔ آج بنگلہ دیش میں ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں 1971 کے واقعات کی یادگاریں بنائی جاچکی ہیں ۔ ایک المیے کو مستقل بنیادوں پر ایسا رنگ و روپ دیا گیا ہے جو بنگلہ دیشی عوام کے سامنے باطل ثابت کرنا کسی طور آسان تھا ، آسان ہے اور نہ ہی آسان ہوگا ۔ ہمارے سروں پر اس وقت مسلط حکمرانوں کی غیر سنجیدگی بلکہ پتھر دلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرنڈر کا الزام سیاستدانوں کے سر تھوپنے کے لئے ایک خاص حکمت عملی تیار کی گئی ۔ 15 دسمبر کی شام جنرل یحیی خان نے ایوان صدر کی میڈیا ٹیم کو ذاتی طور پر ان خطوط پر بریف کیا ۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات و قومی امور میجر جنرل نوابزادہ شیر علی نے ہم خیال سیاسی جماعت کی مدد سے مجیب اور بھٹو کو اس المیہ کے حقیقی ولن کے طور پر پیش کرنے کے لئے پراپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا ۔ ملک دو لخت ہونے کے دیگر اہم اسباب کی طرح ایک نمایاں ترین وجہ یہ بھی تھی کہ اعلی ترین سطح پر یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ امریکا اور چین فوجی طور پر مداخلت کریں گے ۔ راولپنڈی سے ڈھاکہ کو سرکاری طور پر یہی اطلاعات دی جارہی تھیں کہ بین الاقوامی سطح پر وسیع پیمانے پر عملی امداد حاصل کی جارہی ہے ۔ اس طفل تسلی کا یہ اثر ہوا کہ ایک روز بریگیڈیئر صدیق سالک نے ایک سپاہی جس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور ٹوپی پچکی ہوئی تھی کو ریڈیو سے کان لگائے دیکھا تو پوچھا کیا خبریں ہیں ؟ وہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے لہجے میں بولا سر ! چینی یا امریکی امداد کی کوئی خبر نہیں ۔ ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز نے راولپنڈی کو کئی فون کھڑکائے کہ بتاو کب زرد( چینی ) اور سفید ( امریکی) دوست آرہے ہیں تو وہاں سے یہی جواب ملتا جلد۔ حالانکہ ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی ۔ اسی دوران امریکی ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ بحر الکاہل سے خلیج بنگال کی طرف روانہ ہوچکا ہے ۔ تاہم بعد میں ایوان صدر سمیت مختلف ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئیں امریکی بیڑے کی نقل و حرکت کا مقصد مشرقی پاکستان کو بچانا ہرگز نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے امریکا ، بھارت کو مغربی پاکستان پر قبضے سے باز رکھنے کے لئے دبائو ڈالنا چاہتا تھا۔ پاکستان ٹوٹنے کی ایک ایسی وجہ بھی ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ملک کا مکمل کنٹرول ایوب خان کے دور سے ہی غیر سیاسی عناصر کے پاس تھا ۔ فوجی آمریت کے سبب عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بھی اپنا کام کرنے کے لئے آزاد نہ تھا ۔ جنرل یحیی کی صورت میں جو حکمران قوم پر مسلط ہوا اس کے رنگین کردار کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کراہت ہوتی ہے۔ یہ شرمناک اور المناک حقیقت ہے کہ جنرل یحیی خان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ وہ اور ان کے ساتھی ملک کی بقا کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ وہ کسی طرح اقتدار کے چمٹے رہیں اور ان کی عیاشیاں اور بے ایمانیاں چلتی رہیں ۔جنرل یحیی کا دور انتہائی غیر سنجیدہ تھا ۔وہ ہر چیز کو مذاق کے طور پر لیتے تھے مثلا اسی سے اندازہ لگائیں انہوں نے 303 افسر نکالے وہ اس لئے کہ فوجی کی بندوق تھری ناٹ تھری ہوتی تھی ۔اس کے علاوہ انہوں نے پہلے الیکشن کا جو شیڈول بنایا وہ نو مہینے کا تھا ۔ یہ کوئی اتفاق نہ تھا اس زمانے میں وہ محفلوں میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ مدت اس لئے دی کیونکہ اتنی ہی دیر میں بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ رانی کو جنرل کو خطاب دینا ان کی غیر سنجیدگی کی واضح مثال ہے ۔ اور تو اور جنرل رانی کا امور مملکت میں عمل دخل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا ۔ ایک طرف امور مملکت کا برا حال تھا تو دوسری جانب ملک کے بڑی آبادی کو اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ ان کے لئے بنیادی حقوق اور آگے بڑھنے کے مواقع حاصل کرنا آسان نہیں رہا ۔ شیخ مجیب الرحمن جو تحریک پاکستان میں جوش و خروش سے حصہ لے چکے تھے خود بھی اپنے لئے تمام راستے بند پاتے تھے۔ مسلسل مارشل لا اور سازشوں کے ماحول میں فضا بدل گئی اور علیحدگی کی تحریک چل پڑی ۔ مشہور زمانہ چھ نکات سے لے کر ملک ٹوٹنے تک کسی بھی ذمہ دار نے معاملات کو سلجھانے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کو قومی مفاد سے کہیں زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز تھا ۔ پھر وہی نتیجہ نکلا جو نکل سکتا تھا ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ متحدہ پاکستان میں جو حالات درپیش تھے کیا آج اس صورتحال سے چھٹکارا حاصل کرلیا گیا ہے ۔ کیا اب آئین اور قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے ۔ کیا ادارے آزاد ہیں ۔ کیا وسائل کی تقسیم منصفانہ ہے ۔ کیا پنجاب سمیت دیگر تمام صوبوں کے عوام مطمئن ہیں ۔ کیا جبری گمشدگیاں اور ماورائے قانون اقدامات رک گئے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیا انتخابی عمل کو بندوق سے سبوتاژ کرکے من پسند کٹھ پتلی حکومتیں بنانے کا سلسلہ بند ہوگیا ؟
ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہم نے اس عظیم المیے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات