عدل کا جو نظام پاکستان میں قائم ھے ۔ یہ شاید ھی کسی اور جگہ ممکن ھو۔ پاکستان میں وزیر عدل اور عدل کیلئے قائم عدالتیں اور ان کے سربراہان مثالی ھیں۔
جب بھی عدل کی بات ھوگی پاکستان کا نام پہلے نمبر پر آئے گا اور آرھا ھے۔
میری کلاس میں دو عادل ساتھ پڑھتے تھے پہلا عادل دسویں جماعت میں فیل ھوکر سائیکل مرمت اور پنکچر کی دوکان بنا بیٹھا اور جب پاکستان میں سائیکل کا استعمال کم ھوا تو اس نے الیکٹریشن کا کام شروع کردیا اور دوسرا عادل اب سونے کا کام کرتا ھے اور اسکی گولڑہ بازار میں سونے کی دوکان ھے ۔ پہلی ھی ڈکیتی کے بعد وہ عادل بھی عدل کی تلاش میں گم ھوچکا ھے۔ اس طرح ھماری ان دونوں عادلوں سے ملاقات کم ھی ھوتی ھے اور عدل ھوتے بھی ھم نے کم ھی دیکھا ھے۔
کئی مثالی کیسز ھمارے سامنے ھیں جن میں عدل کے بلند معیار کو ھمارے سامنے ماونٹ ایورسٹ بنا کر پیش کر دیا گیا۔
کراچی میں جتوئی خاندان کے قاتل جوان کی انگلیوں سے وکٹری کا نشان ھو یا پھر کوئٹہ میں سیاستدان کی گاڑی کی ٹکر سے پولیس والے کی ھلاکت ھو ۔ عتیقہ اوڈھو کی شراب کی بوتلیں ھوں یا پھر منی لانڈرنگ میں ملوث فیشن ماڈل ایان علی کے کیسز ھوں۔ سب میں ھی عدل ھوتا سب نے دیکھا اور دیکھتے ھی رہ گئے۔
لاھور میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ھاتھوں دو افراد کا قتل اور پھر خصوصی طیارے میں خون بہا ادا کرکے امریکہ روانگی بھی ھمارے نظام عدل کی بہترین مثالیں ھیں۔ اگر آپ انسانی قتل کی پریکٹس کرنا چاھتے ھیں تو آئے پاکستان کی سرزمین آپ کی خدمت میں حاضر ھے۔ ابھی انڈین جاسوس کلبوشن کو بین الاقوامی معیار کا عدل فراہم کرنے کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بل پاس کروایا گیا یہ بھی عدل کی ایک بہترین مثال ھے۔ تمام وکلا کی تصاویر کے پیچھے ایک بک شیلف ھوتی ھے۔ جس میں بہت سی کتابیں آویزاں ھوتی ھیں بلاشبہ وہ کتب ان سب مثالیں عدل کے فیصلوں سے بھری پڑی ھیں۔ ھمارے وزیراعظم نے چوروں اور ڈاکوں کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ سنایا اور وہ بھی صرف تقریروں کا ھی حصہ ھے۔ کیا آپ نے دیکھا ھے کہ سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کے پی کے اور کشمیر کے وزیروں سے کیسے پیسے برآمد ھوتے ھیں اور وہ خود کیسے ملک سے باھر برآمد ھوتے ھیں جیسے کہ کوئی برآمدات ھوں۔ ھم تو ایمل کانسی، عافیہ صدیقی کو خود امریکہ کے حوالے کرتے ھیں اور یہی کسی کام کسی غیر ملکی نے ھمارے ملک میں کیا ھو تو ھم ان کو بین الاقوامی عدالتوں تک رسائی اور اس کا خون بہا بھی خود ادا کرتے ھیں۔
ھم عدالتوں کو بروقت ضرورت شرعی عدالتوں یا فوجی عدالتوں میں بھی راتوں رات بدل دیتے ھیں۔ عدل کا بول بالا شاید ھی ایسا کبھی دیکھا ھو۔ ایک طرف آپ دشمن ملک کی ایمبیسی کے سامنے سے گزر جائیں اور ساری زندگی آپ جواب دیتے رھیں کہ کیوں گزرے تھے۔ بے شک راستہ بھول کر ھی ادھر سے گزر ھوگیا ھو اور دوسری طرف ھمارے اداروں کے سربراہان دشمن ملک کے اداروں کے سربراہان کے ساتھ ملکر کتابیں لکھیں اور انکو بیرون ملک جانے کی بھی آزادی ھو اور سزا بھی کوئی نہ ھو۔ عجیب عدل ھے اور اس کا نظام ھے۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ھوتا ھے۔ پر یہاں آپ حکومت بناتے ھو کہ پہلے والے چور ھیں اور پھر انکو باھر علاج کی سہولیات بھی مہیا کرتے ھو۔ اور خاندان کی خوشی غمی میں شرکت کی اجازت بھی دیتے ھو۔ اگر عدل کا نظام قائم نہیں کرسکتے تو کم از کم سب کو اس نظام کی سہولیات تو ایک طرح کی مہیا کرسکتے ھو۔ اگر جرم کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو ھم پولیس، وکلاء، ججز کی مد میں بہت سے پیسے کا ضیاع بھی بچا سکتے ھیں۔ اور مظلوم کی داد رسی بھی ھوگی کیونکہ اس کو عدل کی امید ھی نہ ھوگی اور نہ اس کی وہ کوشش کرے گا۔ خود سوچیں کتنا وقت اور پیسہ بچے گا۔
اسلام آباد ھائیکورٹ پر وکلاء نے حملہ کیا جسٹس صاحب کو یرغمال بھی بنائے رکھا کہاں انصاف ھوا۔
اب آپ اسی عدالت میں جاکر بیٹھ جائیں موبائل کی گھنٹی بج جائے یا آپ کو چھینک آجائے تو توھین عدالت ھوسکتی ھے اور آپ تین ماہ کیلئے جیل جاسکتے ھیں۔ آئے دن وکلاء کی جج صاحبان سے بدتمیزیاں اور اس کی ویڈیوز سامنے آتی ھیں۔ کب کوئی سزا ھوئی۔ مہربانی فرماکر یہ توھین عدالت کا قانون حذف کیا جائے۔ جنگل کا قانون نافظ کیا جائے طاقتور ھمارا بادشاہ اور ھم سب گیڈر اس کی رعایا۔ مہربانی فرماکر الزام تراشی کی بجائے الزام ثابت کریں اور سزائیں سنائیں۔ قانون کی بے بسی اب برداشت سے باھر ھوگئی ھے۔ عدل قائم کیجئے یا پھر ختم کردیجئے۔ یہ فل کورٹ سے خطاب بند کیجئے۔ جب جرائم کی چھٹی نہیں ھے تو عدالتی نظام کی چھٹیاں بھی سمجھ سے باھر ھیں۔ بلاتفریق عدل کیجئے اور آج سے ابھی سے کیجئے۔ اسی کا انتظار ھے۔
پاکستان زندہ باد ۔ قانون پاکستان پائندہ باد