خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس میں وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس کی غلط جواب جمع کرانے پر وزرات انسانی حقوق کے حکام کی سرزنش

اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی شرعی عدالت  میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس میں قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انورنے غلط جواب جمع کرانے پر وزرات انسانی حقوق کے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانون بنا دیا گیاہے لیکن چار سال کے عرصے میں کسی ایک خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی بتایا جائے کہ کیا کسی خواجہ سرا نے نوکری کے لئے اپلائی نہیں کیا یا انہیں حق سے محروم رکھا گیا ہے ۔

قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ جسٹس سید محمد انور  اور جسٹس قاسم ایم شیخ پر مشتمل دو رکنی بنچ  نے خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ 2018کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی تو جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد خان، جے یو آئی ف کے وکیل سینیٹر کامران مرتضی، پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے ،

دوران سماعت وزارت انسانی حقوق  اور نادرا نے اپنی رپورٹس جمع کرائیں ، وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قانون آنے کے بعد ملک کے کسی ادارے میں ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی ، رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ سندھ اور خیبرپختونخواکی جیلوں میں کل پانچ خواجہ سرا قید ہیں باقی صوبوں میں کوئی خواجہ سرا جیل میں موجود نہیں ہے ۔ اسلام آباد میں بنائے گئے پروٹیکشن سنٹر میں 100خواجہ سرا کی رجسٹریشن کی گئی ہے ۔نادرا کی جانب سے بتایا گیا کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کا قانون آنے سے پہلے شناختی کارڈمیںمر دخواجہ سرا  یا خاتون خواجہ سرا لکھا جاتا تھا اب ایسا نہیں کیا جاتا ۔ اب ان کی مرضی کے مطابق صنف لکھی جاتی ہے ،

درخواست گزار احسن گجر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ خواجہ سراوں کے تحفظ کیلئے بنائے گئے قانون میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا،خواجہ سرا الماس بوبی نے موقف اپنایا کہ محض کسی کے احساس کی بنیاد پر جنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا، آج میرے احساسات مرد والے، کل عورت والے ہونگے تو کیا میں اس بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کرتا رہوں،الماس بوبی نے کہاکہ کل اگر میں محسوس کروں ملک کا وزیراعظم ہوں تو کیا مجھے وزیراعظم والا شناختی کارڈ دے دیا جائے گا، این جی اوز کہتی ہیں ہم جنسی پرستی کریں ساتھ ہی ایڈز سے بچا کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں،قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں،

الماس بوبی نے کہاکہ ہمیں تو سعودی عرب میں حج کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، ایک اور خواجہ سرا جولی خان نے موقف اپنایا کہ خواجہ سراوں کو میڈیکل کرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے،ہمارے حقوق کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے،میڈیکل بورڈ کے ذریعے تعین ہونا چاہیے میری جنس کیا ہے، دوران سماعت نادرا کی طرف سے تحریری جواب جمع کرا دیا گیاجس میں موقف اپنایا گیا تھاکہ جو خواجہ سرا اپنی جنس منتخب کرتا ہے ہم اس کے مطابق اندراج کر لیتے ہیں،سن دو ہزار بارہ سے لیکر آج تک تین ہزار اکتالیس خواجہ سرا کا اندراج کیا گیا،خواجہ سراوں کے تحفظ کے قانون سے قبل نادرا مرد خواجہ سرا یا عورت خواجہ سرا کے نام سے اندراج کرتا رہا،جب قانون بنا تو ہم ایکٹ کے تحت ایکس کا اندراج شروع کیا گیا،

نادرا کے وکیل نے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق 1953 مرد خواجہ سرا اور 902 عورت خواجہ سرا کا اندراج کیا گیا، دوران سماعت  قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے نادرا کے وکیل سے  مکالمہ کے دوران اہم سوال اٹھاتے ہوئے  استفسار کیاکہ کیا کسی شخص نے خواجہ سرا کی شناخت کو ختم کرنے کیلئے نادرا میں درخواست دی ہے؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ریکارڈ چیک کرکے عدالت کو آگاہ کیا جائے گا،

جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ یہ جانچنا ضروری ہے کہ تاثر میں تبدیلی کیا ذہنی خرابی کے سبب تو پیش نہیں آئی،یہ بھی جانچ ہونی چاہیے تاثر میں تبدیلی کی وجہ بدنیتی تو نہیں، کامران مرتضی نے کہاکہ ٹرانسجینڈر ایکٹ سے خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی، ذاتی پسند ناپسند پرجنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا،

کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ میر اجسم میری مرضی ، میرااحساس میری مرضی کا نعرہ  اسلامی معاشرے میںنہیں چل سکتا،سوشل میڈیا پرسینیٹر مشتاق احمد خان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی کسی کی عزت نہیں اچھا ل سکتا ، کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا؟سینیٹر مشتاق احمدخان نے کہا کہ پنجاب پولیس نے آئی جی کو خط لکھاکہ خواتین پولیس اہلکار خواجہ سراکے ساتھ ٹریننگ کیلئے تیار نہیں، وہ خواجہ سرا لڑکی بن کر بھرتی ہوگیاتھا،

قانون کے غلط استعمال کی اور بھی مثالیں موجود ہیں،جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل مکمل کرلئے ، دوران سماعت وزارت انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میںبتایا گیا تھا کہ قانون آنے کے بعد ملک کے کسی ادارے میں ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی سندھ اور خیبرپختونخواکی جیلوں میں کل پانچ خواجہ سرا قید ہیں ،پنجاب، بلوچستان میں کوئی خواجہ سرا جیل میں موجود نہیں ہے۔

اسلام آباد میں بنائے گئے پروٹیکشن سنٹر میں 100خواجہ سرا کی رجسٹریشن کی گئی ہے ۔اس دوران  قائم مقام چیف جسٹس  نے وزارت انسانی حقوق کے حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ تیسری مرتبہ عدالت میں غلط بیانی کی گئی ہے،ہمیں  بتایا گیا کہ کسی خواجہ سرا نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا۔ اس دوران نمائندہ این جی اوزشیرخان نے کہاکہ نادرامیںایگزیکٹو پوسٹ پر تعینات نتاشا کو ہراساں کیا گیا ،خواجہ سرا نتاشا نے مقدمہ درج کرارکھا ہے ،

اس دوران غلط جواب پروزارت انسانی حقوق کے حکام نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نے جو رپورٹ دی ویسے ہی عدالت میں جمع کرائی ، جس پر عدالت نے حقائق پر مبنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔ دوران سماعت این جی او ٹرانسجینڈر ریسرچرکے نمائندے نے جماعت اسلامی پر الزام لگا دیا نمائندہ این جی اوزشیرخان جماعت اسلامی خواجہ سراں کے خلاف مہم چلا رہی ہے ،

سینیٹر مشتاق احمد خان نے عدالت سے کہا کہ مجھ پر اور میری جماعت پر بغیر ثبوت الزام لگایاگیاہے،جس پرعدالت نے این جی او کے نمائندہ کو ایسے الزامات لگانے سے روک دیاقائم مقام چیف جسٹس کا فریقین سے کہنا تھا کہ ادھر ادھر جانے کی بجائے  اصل پوائینٹ پر رہیں اب یہ قانون بن چکا ہے اس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 29نومبر تک ملتوی کردی ۔۔