غزہ(ایم نثار خان) اسرائیلی دائیں بازو کے گروپ بتسلیم اور غزہ میں واقع انسانی حقوق مرکز برائے فلسطین نے کہا کہ اسرائیل حال ہی میں غزہ کی سرحدی پٹی پر احتجاج کے دوران فائرنگ سے215فلسطینیوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کرنے کے حوالے سے تحقیقات کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور ابتدائی طور پر کسی فوجی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے، یہ عمل بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمے کو مضبوط کرتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ عوامی فسادات غزہ کے حماس رہنما کے منظم گردہ تھے جس کا مقصد سرحد پر کیے گئے ان کے حملوں پر پردہ ڈالنا تھا۔فوج نے کہا کہ مبینہ بدسلوکی کی مکمل تحقیقات کی گئی تھی اور واقعے میں ملوث فوجیوں کو جواب دہ ٹھہرایا گیا تھا۔مارچ 2018سے غزہ کے سماجی اراکین کی جانب سے ہفتہ وار احتجاج کیا جاتا ہے، ابتدائی طور پر احتجاج کا مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کی حالت زار کی نشاندہی کرنا تھا، جہاں یہ پناہ گزین موجود ہیں یہ علاقہ اب اسرائیل کا حصہ ہے اور یہ غزہ کی تین چوتھائی آبادی پر مشتمل ہے اور یہاں 2لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں۔ناقدین کے مطابق حماس نے جلد ہی مظاہروں کا ساتھ دیا اور جب اس گروپ نے 2007میں حریف فلسطینی فورسز سے اقتدار حاصل کیا تو علاقے میں اسرائیلی-مصری ناکہ بندی کو کم کرنے کے لیے مظاہروں کا استعمال کیا گیا۔18ماہ سے تقریبا ہر ہفتے ہزاروں فلسطینی غزہ کی سرحد کے مختلف مقامات پر جمع ہوتے ہیں اور مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائر نذر آتش کرتے ہیں اور فائر بم پھینکتے ہیں۔مظاہروں کے دوران اسرائیلی نشانہ بازوں کی جانب سے گولیاں ماری گئی تھیں، ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس بھی پھینکی گئی تاہم اسرائیل نے اس عمل کو اپنا دفاع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب اسرائیل پر دھاوا بولنے والے ہزاروں فلسطینیوں سے حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔غزہ کے انسانی حقوق کے مرکز المیزان کے مطابق اسرائیلی فائرنگ میں تقریبا 215فلسطینی شہید ہوئے تھے جس میں متعدد غیر مسلح تھے، شہید ہونے والوں میں 47کی عمر 18سال سے کم تھی اور ان میں 2 خواتین بھی شامل تھیں۔علاوہ ازیں 2019کے اختتام میں ہونے والے مظاہروں میں متعدد مظاہرین شدید زخمی ہوئے تھے۔سال 2018میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی نشانہ بازو کو شہید کردیا تھا، واقعے میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے بیشتر سرحد کے احاطے سے دور تھے۔اسرائیلی دائیں بازو کے گروپ بتسلیم اور غزہ میں واقع انسانی حقوق مرکز برائے فلسطین کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، سینئر کمانڈرز کے دئیے گئے احکامات کے مسئلے کی تحقیقات کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور ابتدائی طور پر کسی فوجی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق اپریل میں فیکٹ فائنڈنگ میکانزم کے ذریعے اسرائیلی فوج کو پراسیکیوٹر کو منتقل کیے گئے 143کیسز میں سے 95بغیر کسی کارروائی کے ختم کردئیے گئے، 14سالہ فلسطینی لڑکے کو قتل کرنے سے متعلق واحد کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی لیکن یہ کیس بھی التوا شکار ہے۔مذکورہ اعداد و شمار معلومات کی آزادی کے قانون کے پیش نظر درخواست پر اسرائیلی فوج سے حاصل کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جن سپاہیوں کی نشاندہی کی گئی انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے زندگی اور صحت کو خطرے میں ڈالا ہے اور انہیں ایک ماہ کمیٹی سروس کی سزا سنائی گئی ہے۔