آئی پی ایس اورڈیپو کے اشتراک سے ‘ آئیڈیاز 2022 سیمینار میں پاکستان کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر تحقیق کا مرکز بنانے کا عزم


کراچی(صباح نیوز)آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں ہونے والے تیز رفتار ترقی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان بھی اس پیش رفت سے مطابقت رکھے اور  ٹیکنالوجی سے متعلق عملی تحقیق کے ذریعے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیٹا سائینس اور انٹرنیٹ آف تھنگز کے میدانوں میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹیوں کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ وہ تحقیق، تخلیقی صلاحیتوں، تعاون اور مہارتوں کو یکجا کرنے کے کلیدی اداروں کے طور پر کام کرتی ہیں۔

یہ خیالات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) ،اسلام آباد اور ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن (ڈیپو) کے اشتراک سے ‘ ڈیفینس مارکیٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس: فوجی حکمتِ عملی اور قومی سلامتی میں ایک پیراڈائم شِفٹ’ کے عنوان سے ہونے والے سیمینار کے دوسرے روز پیش کیے گئے جس کا انعقاد آئیڈیاز 2022 کے ایک حصے کے طور پر ایکسپو سینٹر کراچی میں کیا جا رہا تھا۔  اس تقریب کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار محمد اسرار ترین تھے۔اس تقریب میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن نے تعارفی کلمات پیش کیے جبکہ نیشنل سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے چیئرمین ڈاکٹر یاسر ایاز نے سیمینار کی نظامت کی۔ مقررین میں لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر غلام مرتضی، کالج آف ای ایم ای، نسٹ، ڈاکٹر محمد طیب علی،

این سی اے آئی، نسٹ، میجر عون صفدر، کالج آف ای ایم ای، نسٹ، ڈاکٹر ولید بن شاہد، ایم سی ایس، نسٹ، لیفٹیننٹ کرنل عثمان ضیا، ایم سی ایس، نسٹ، اور اسکواڈرن لیڈر جویریہ فاروق، سی اے ای، نسٹ شامل تھے۔  جدید ترین ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور مشین لرننگ کے ذریعے صنعتی اور دفاعی شعبوں میں پاکستان کی ترقی کا اعتراف کرتے ہوئے اسرارترین نے کہا کہ ملک جدید ترین ٹیکنالوجیز اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والی ایپلی کیشنز کی مدد سے تعلیم، کاوربار اور تحقیق کے شعبوں میں انقلاب لا کر دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیٹا سائنس، کلاڈ-نیٹیو کمپیوٹنگ، ایج کمپیوٹنگ، بلاک چین، آگمینٹڈ ریالِٹی، اور انٹرنیٹ آف تھنگز  کا مرکز بن سکتا ہے۔  اس سلسلے میں اکیڈمی، ریسرچ اسکالرز، اور ڈیٹا سیوی افراد کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس اینڈ کمپیوٹینگ جیسے صدارتی اقدامات کے ذریعے آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور چوتھے صنعتی انقلاب(انڈسٹری 4.0) کے میدان میں مواقع فراہم کیے جانے چاہیے۔

اسی طرح  سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے علاوہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور فائیو جی جیسی جدید ٹیکنالوجیز نے  عصری جنگ، میدان جنگ اور اس کی حکمت عملیوں کی پوری حرکیات کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔  ان تزویراتی تبدیلیوں کے ساتھ، سیکورٹی کا تصور روایتی اصطلاحات اور ابتدائی طریقہ کار سے آگے بڑھ  کرمنظم میکانزم اور ٹیکنالوجی پر مبنی طریقہ کاروں میں تبدیل  ہو گیا ہے، جو کہ ریاستوں کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔  ترقی کے عمل میں انسانی عقل اور تحقیق کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے خالد رحمن کہا کہ  عملی تحقیق کے ذریعے ہی انسان علم کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے، اسے ذخیرہ کرنے، اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنانے، اسے جلد سے جلد پراسیس کرنے اور پھر اس کا تجزیہ کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس سلسلے میں  یونیورسٹیوں نے معاشرے، ثقافت، معاشیات، اور ماحولیات کے کلیدی شعبوں اور خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں، جس کا اثر اب زندگی کے ہر میدان میں جھلکتا ہے، ترقی کی رفتار طے کرنے کے لیے کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اے آئی میں ترقی کبھی نہیں رکے گی اور کسی بھی ملک کو اے آئی کی ترقی میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ترقی میں بنیادی کردار یونیورسٹیوں کے ذریعے ہی دیکھنے میں آتا ہے، جہاں اے آء کی تحقیق، تخلیق اور تعاون کا ماحول، نہ صرف آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے متعلقہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ مہارت، بصیرت اور ایک سے زیادہ نظریات کے امتزاج سے اس کام میں درپیش مختلف قسم کے چیلنجوں سے نمٹنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔  اکیسویں صدی کے نئے پیچیدہ سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دیگر مقررین نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی مختلف ایپلی کیشنز اور پروسیسز پر اپنے تحقیقی مقالے، خیالات اور نتائج پیش کیے، جن پر مستقبل کی بین الاقوامی سلامتی کی حرکیات کا انحصار بڑی حد تک متوقع ہے۔