اسلام آباد (صباح نیوز)لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم پارلیمانی کمیشن کے کنونیئر سردار اختر مینگل کی سربراہی میں ارکان نے وائس آف بلوچستان مسنگ پرسنز کی جانب سے لگائے گئے کیمپ کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی متاثرین نے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کی طرف سے طاقتوروں کو فریق بنا کر شامل تفتیش کیا جائے،متاثرین کے خاندانوں کے بیانات ریکارڈ کر کے رپورٹ کا حصہ بنائے، متاثرہ خاندانوں نے سردار اختر مینگل کو اپنے خدشات اور مسائل سے آگاہ کیا اور لواحقین کی گمشدگیوں کی داستانیں سنائیں ۔
اسلام آباد سے کمیشن کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اس موقع پر سردار اختر مینگل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کیمپ کے شرکاء کو کمیشن کی تشکیل اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپریل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کمیشن بنایا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی اجلاس نہیں ہو پایا۔ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذمہ داری مجھے سونپی ہے۔لاپتہ طلبا کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کے اب تک سات اجلاس ہو چکے ہیں۔متاثرہ خاندانوں سے حقائق سنیں گے اور اس کو ریکارڈ کا حصہ بنا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔کمیشن کو رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرانے کیلئے دو ماہ دئیے گئے ہیں۔
انھوں نے یقین دہانی کروائی کہ ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو وقت پر مثبت انداز میں پورا کریں۔اس موقع پر وائس آف بلوچستان مسنگ پرسن کے صدر نصراللہ بلوچ کا اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں،2021کے بعد سے جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہواہے- سپریم کورٹ نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے احکامات جاری کئے۔ مگرحکومت فیصلے پرعمل درآمد کرنے میں ناکام ہیں، اب تک بہت کمیشن بنے لیکن کوئی کام نہیں کیا گیا۔ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے صوبائی کمیٹیاں بنائی گئیں لیکن اس کے بھی کوئی نتائج نہیں نکلے۔تحریک انصاف کی حکومت میں فروغ نسیم کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی لیکن کاروائی نہیں کی گئی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
سردار اختر مینگل کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن سے امید ہے کہ کچھ مثبت نتائج نکلیں گے اب تو خواتین بھی لاپتہ ہو رہی ہیں جن کے کیسز رجسٹرڈ ہیں ۔حکومتی کمیشن کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی۔مسخ شدہ لاشوں میں اکثر لاپتہ افراد شامل ہیں ۔نعشوں کی شناخت کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔مسخ شدہ نعشوں کی شناخت کے کوئی ذرائع استعمال نہیں کئے گئے۔ کمیشن طاقتوروں کو فریق بنا کر شامل تفتیش کیا جائے، یو این ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی نے مسنگ پرسن کے حوالے سے حکومت پاکستان کو تجاویز دی تھیں ان تجاویز کو دیکھنا چاہئے،متاثرین کے خاندانوں کے بیانات ریکارڈ کر کے اپنی رپورٹ کا حصہ بنائے، متاثرہ خاندانوں نے سردار اختر مینگل کو اپنے خدشات اور مسائل سے آگاہ کیا اور لواحقین کی گمشدگیوں کی داستانیں سنائیں۔متاثرہ خاندانوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے اہل خانہ اگر قصور وار ہیں تو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر قصور وار نہیں تو بازیاب کرایا جائے
دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بنائے گئے پارلیمانی کمیشن نے کنوینئر سردار اختر مینگل کی سربراہی میں بلوچستان ہائی کورٹ کا دورہ کیا اور بلوچستان بار کونسل کے وفد سے ملاقات کی اس موقع پرسربراہ کمیشن نے تشویشناک ریمارکس دیئے ہیں کہ بلوچستان میں صرف گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی بلکہ میڈیا اور انصاف کی بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ،جسٹس (ر)جاویداقبال کے لاپتہ افراد کے حوالے سے ڈیٹا حقیقت پر مبنی نہ ہونے پر مسترد کردیا ہے، متاثرہ خاندانوں کی چیخوں اور آنسووں کے علاوہ کچھ نہیں لیکن ان کی چیخیں کوئی نہیں سن رہا۔
یہا ں کمیشن کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق بار کونسل کے وفد سے ملاقات میں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے معاملے پر گفتگوہوئی۔ بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسنگ پرسن صوبے کا بڑا مسئلہ ہے اور اس نوعیت کے سینکڑوں کیسز ہیں،جبری گمشدگی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے،ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرے لیکن اس میں سب ناکام ہیں۔صدر کوئٹہ بارنے کہا کہ بطور وکیل ہر مظلوم کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، ہم وکلا نے قربانیاں بھی دی ہیں،جہاں تک ہو سکے اس کمیشن کو فعال رکھیں،وکلا ہر وقت اس کمیشن اور ہر مسنگ پرسن کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔
جے یو آئی کے رہنما کمیشن کے رکن سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ افسوس ہے یہ سب جو ہو رہا ہے ریاست کے ہاتھوں ہو رہا ہے، مسنگ پرسن کے حوالے سے میں بڑی تشویش کا شکار ہوں،یہ مسائل چلتے رہیں تو ہمارے بچے یہاں نہیں رہ پائیں گے،اب یہ مسئلہ بہت پرانا ہو چکا ہے لیکن ان مظلوموں کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔ڈاکٹر عاصمہ فیض (لمز) نے کہا کہ آج پہلی بار یہاں آئی ہوں۔ مسنگ پرسن کے لواحقین کی داستانیں سن کر میں شرمندگی محسوس کر رہی ہوں، جو بلوچ طلبہ بلوچستان سے باہر یونیورسٹی میں پڑھنے جا رہے ہیں ان کو بھی ہراسگی کا سامنا ہے۔اس مسئلے کو مل کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی ہم میں صلاحیت ہے اتنی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
علی احمد کردنے کہا کہ مسنگ پرسن کے حوالے سے کمیشن بہت بنے،جاوید اقبال کی زیرصدارت بھی کمیشن بنا،فضل الرحمان کمیشن ، حمود الرحمان بنا،اتنے کمیشن بنے اور فیل ہوئے کہ کمیشن پر لوگوں کا اعتبار نہیں رہا،اطہرمن اللہ کی تعریف کرتا ہوں کہ مسنگ پرسن کے حوالے سے کمیشن بنایا،میں سمجھتا ہوں کہ یہ کمیشن اس ملک میں ضرور مسنگ پرسن کے حوالے سے مثبت تبدیلی لائے گا،انھوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کو تمام صوبوں میں مسنگ پرسن کے معاملے پر غور کرنا پڑے گا۔مسنگ پرسن پر سپریم کورٹ فل کورٹ تشکیل دے کر روزانہ اس حوالے سے سماعت کرے۔
کمیشن کے رکن افراسیاب خٹک نے کہا کہ مسنگ پرسن کے متاثرین ایک کمیونٹی کی مانند ہے،اس کمیونیٹی سے جنگ کے ذمہ دار کون لوگ ہیں، وزیراعظم کو اس بات کا جواب دینا چاہئے، اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آگیا ہے،ہمیں صرف عدالت نے اس حوالے سے رپورٹ تیار کرنے کا کہا ہے اور وہ ہم کریں گے، رپورٹ دیگر رپورٹس کی طرح دبائی نہیں جائے گی،ملک باہر کی سازش سے تباہ حال نہیں ہوتے کھوکھلے نہیں ہوتے بلکہ اندر سے ہی معاملات خراب ہوں تو ملک کھوکھلا ہو جاتا ہے، پاکستان کے آئین کی طرف واپس آنا چاہئے، انگریزوں کی غلامی نہیں ماننی
سربراہ کمیشن سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائے گئے اس کمیشن کے سات اجلاسوں میں طلبہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنا گیا ہے، اس سے پہلے جتنے بھی کمیشن بنے اگر اس پر عمل درآمد ہوتا تو حالات اتنے برے نہیں ہوتے، اتنے کمیشن فلاپ ہوئے کہ کمیشنز پر لوگوں کااعتبار ختم ہو چکا ہے، جتنا ہمارے دائرہ اختیار میں ہے کوشش ہوگی کہ اس دو ماہ میں اس کمیشن کی تجاویز اور فائنڈنگ ہائی کورٹ میں جمع کرا دیں، جسٹس (ر)جاویداقبال سے ملاقات ہوئی ، مسنگ پرسن کے حوالے سے انہوں نے جو ڈیٹا دیا وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھا میں نے جاوید اقبال کی مسنگ پرسن کے حوالے سے رپورٹ کو مسترد کردیا تھا، مسنگ پرسن کی بازیابی کے لئے کیمپ میں چیخوں اور آنسووں کے علاوہ کچھ نہیں لیکن ان کی چیخیں کوئی نہیں سن رہا،حکومتوں نے مسنگ پرسن کے حوالے سے اپنا موثرکردار ادا نہیں کیا عدالتوں کو اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہئے،ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ مسنگ پرسن کا نوٹس لے یہ لوگ بھی پاکستان کے شہری ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ بھارتی ابھی نندن کو پروٹوکول کے ساتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے ہمارے لاپتہ لوگوں کو پٹھے کپڑوں میں ہی سہی لیکن واپس کردیں، اتنے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن میڈیا کو سینسر کردیا جاتا ہے، بلوچستان میں صرف گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی بلکہ میڈیا اور انصاف کی بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔