اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کو 17نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم سب اس بات پر آمادہ ہیں کہ احتساب کاقانون ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو سکتی ہے۔ قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کرپشن کو اتنا درد ناک جرم بنانا چاہیے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نا کرے۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوے کہاکہ تمام نیب کیسز احتساب عدالتوں کو بھیجے تو کئی افراد تمام الزامات سے بری ہوئے، موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قانون کا ایک بنچ مارک ہے جس سے نیچے لاقانونیت ہوتی ہے، اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے، کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے؟ کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آ سکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟ کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اس طرح تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں، قانونی معیار عدالت نہیں ،آئین طے کرتا ہے،عدالت ایگزیکٹیو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہو، یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، بین الاقوامی معیار کے مطابق جس ملک میں کرپشن ہو گی اس کا بیڑا غرق ہو گا، کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نا کرے، نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوے کیس کی سماعت آج بروز منگل تک ملتوی کر دی۔