عمران خان ملک کے سربراہ بنے تو امید پیدا ہوئی کہ ایک کھلاڑی وزیر اعظم، پاکستان میں پہلی دفعہ ایک مربوط اور جامع اسپورٹس پالیسی کی بنیاد رکھے گا۔ بیشتر قومی قائدین کی طرح، عمران خان کی سوچ بھی ان کے تجربات سے متاثر تھی۔
عمران خان، ایچی سن کالج سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے رکن بنے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے بعد، ووسٹر شائر کاؤنٹی کی نمائندگی کی۔ انگلستان میں کاؤنٹی کرکٹ کا پس منظر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا۔
لندن میں پہلا کرکٹ کلب (M.C.C)میری لی بون،1787 میں قائم ہوا اور لارڈز کی مشہور کرکٹ گراؤنڈ 1814 سے اس کی ملکیت ہے۔
ووسٹر شائر کرکٹ کلب کی ابتدا 1865 میں ہوئی۔ عمران خان نے سسیکس کاؤنٹی کی طرف سے کرکٹ کھیلی اور یہ کلب بھی 1872 میں قائم ہوا۔ عمران خان نے آسٹریلیا میں ورلڈ سیریز کرکٹ اور نیو ساؤتھ ویلز کی طرف سے کھیلتے ہوئے لاکھوں پاؤنڈ کمائے۔
انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کرکٹ بورڈ ہر سال اپنی آمدن کا ایک حصہ کلبوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ممبر شپ فیس کے علاوہ، کلب کے ریستوران اور شراب خانے بھی خطیر رقم کماتے ہیں۔
فارسی کی مشہور ضرب المثل کے مصداق، کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوی، عمران خان اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر ووسٹر شائر کاؤنٹی میں مقبول ہوئے۔
آزاد خیال ماحول میں انگلستان کا میڈیا انہیں ایک عیاش کھلاڑی کے طور پر پیش کرتا رہا۔ عمران خان اپنی خود نوشت All round view میں لکھتے ہیں کہ جب میں نے ووسٹر شائر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو چیئرمین نے مجھے کہا (If I was leaving becuase I could not find enough girls in the town) کیا میں اِس وجہ سے چھوڑ رہا ہوںکہ مجھے اِس شہر میں وافر لڑکیاں دستیاب نہیں؟ عمران خان شکوہ کرتے ہیں ۔ (Later on to my amusement, he made the same statement to the press. No wonder I was given a playboy image.) بعد ازاں مجھے اِس بات پر حیرت ہوئی کہ چیئرمین نے یہی بیان میڈیا میں جاری کیا۔ اِسی بنا پر میرے بارے میں ایک آوارہ منش نوجوان کا تاثر پیدا ہو گیا۔
عمران خان کے غیر ممالک میں خوشگوار تجربات کے برعکس، پاکستان میں کھیل اور کھلاڑی زبوں حالی کا شکار تھے۔ بیشتر کرکٹ کلب، کھیل کے میدان سے محروم تھے۔ ٹرف وکٹ کے اخراجات بچانے کے لیے سیمنٹ کی وکٹ بنائی جاتی۔ کلب کے منتظمین، علاقے کے مخیر حضرات سے چندہ جمع کرتے۔
ایسابھی ہوتا کہ کھیل کا میدان ایک سے زیادہ کلبوں کے زیرِ استعمال رہتا۔ بھٹو دور میں، اداروں نے مختلف کھیلوں کی ٹیمیں بنائیں۔ کھلاڑیوں کیلئے روزگار کا بندوبست تو ہو گیا، مگرا سٹیڈیم تماشائیوں سے خالی رہے۔ عمران خان نے 1980 کی دہائی میں تجویز کیا کہ علاقائی وابستگیوں کی بنیاد پر کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ہو۔ عوامی پذیرائی حاصل ہو گی تو کھیل اور کھلاڑی کے مسائل ازخود حل ہو جائیں گے۔
کئی دہائیوں کے بعد جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو حالات تبدیل ہو چکے تھے۔ کسی ٹیم یا کھلاڑی سے شائقین کی جذباتی وابستگی، عالمی میڈیا کی وجہ سے علاقائی حدود سے بالا تر ہو چکی تھی۔ اب کرکٹ کھیلنے والے ہر ملک میں T20 مقابلوں کی لیگ یا فرنچائز موجود ہے۔ کرکٹ بورڈ امیر ہو چکے ہیں۔ اچھے کھلاڑیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں۔ مگر عمران خان کی پرانی تجویز پر عمل کرتے ہوئے، حکومت نے اداروں کو ایک نیا ہدایت نامہ جاری کر دیا۔ اِس حکم نامے کی آڑ میں بینکوں اور دوسری کمپنیوں نے فورا اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ بند کر کے کھلاڑیوں کو گھر کی راہ دکھا دی۔
کرکٹ بورڈ نے عمران خان کے وژن کے مطابق چھ علاقائی ٹیمیں بنائیں۔ ان کیلئے چیف ایگزیکٹو آفیسر، کوچ، کھلاڑیوں اورا سپورٹس اسٹاف کو خطیر رقم دی گئی۔ اصل مقصد پورا نہ ہوا۔ آج بھی پی ایس ایل کے میچ میں اسٹیڈیم بھر جاتے ہیں ، مگر شائقین بورڈ کی بنائی ہوئی، علاقائی ٹیموں کے مقابلے دیکھنے نہیں آتے۔ اداروں کو دوسری ہدایت تھی کہ وہ علاقائی ٹیموں کی سرپرستی کریں۔ اِس حکم پر عمل درآمد نہ ہوا۔
پاکستان کا کوئی بھی بینک یا ایسا تجارتی اور صنعتی ادارہ جس کی مصنوعات پورے پاکستان میں مارکیٹ ہوتی ہوں، کسی مخصوص علاقے سے وابستہ ہونے پر تیار نہیں۔ہمسایہ ملک میں کھیلوں کی قومی اہمیت کے پیش نظر فٹ بال، ہاکی، بیڈ منٹن اور کبڈی کے لیے، کرکٹ کی طرز پر، مختلف لیگ مقابلے شروع کیے گئے، مگر پاکستان میں پیش رفت نہ ہوئی۔
خیال تھا کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں سرکاری اداروں، کھیلوں کی تنظیموں اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے، مختلف لیگ مقابلوں کا اہتمام ہو گا۔ تجارتی اداروں کو کھیل کی سرپرستی پر مائل کرنے کیلئے نئے امکانات تلاش کیے جائیں گے۔
کمرشل ادارے نہ صرف لیگ کے مقابلے اسپانسر کر سکتے ہیں بلکہ مختلف کھیلوں کے لیے مخصوص اسٹیڈیم کی تعمیر بھی ان کی مالی معاونت سے ممکن ہے۔ ہاکی کے کھیل میں زوال کی بنیادی وجہ، میدانوں میں آسٹروٹرف کی عدم دستیابی سے منسلک ہے۔ صرف چند اسٹیڈیم میں آسٹروٹرف دستیاب ہے۔ کیا اِس ضمن میں اداروں سے تعاون نہیں لیا جا سکتا؟ کیا حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کو مائل نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے اشتہاری اخراجات کا ایک حصہ، کھیلوں کی ترویج کیلئے مختص کریں۔
عمران خان کا دور ختم ہوا تو پرانا حکم منسوخ ہو گیا۔ مگر ادارے ازخود مختلف کھیلوں کی ٹیم بنانے کے لیے ابھی تک تیار نہیں۔ کرکٹ کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا، مگر دوسرے کھیلوں سے منسلک کھلاڑیوں کیلئے روزگار کے مواقع کم ہو گئے۔
نوجوان کھلاڑی اب صرف کرکٹ کی طرف مائل ہوتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے صحت مند رحجان نہیں۔یہ حسرت ابھی قائم ہے کہ کوئی حکومت ایسی جامع اسپورٹس پالیسی ترتیب دے جو پاکستان میں الگ الگ لیگ کے مقابلوں سے مختلف کھیلوں کی ترویج اور کھلاڑیوں کیلئے معاشی مواقع پیدا کرے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ