بس کردیں سر جی!! : تحریر محمد طاہر


طبیعتیں اوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری
سر جی! سال 1978 کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پراسرار جنم ہوا، کراچی نے سکون کا کوئی لمحہ نہیں دیکھا۔ کراچی پر گرفت رکھنے کا عسکری ذہن دراصل مرکزی سیاست کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ رئیسِ عسکریہ جنرل ضیا باتیں اسلام کی کرتے تھے مگر انہیں کراچی کے اسلامی تشخص کی حامل سیاسی جماعتیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔عمران خان کی طرح، جن کے اسلام کو کچھ مزاروں ، ایک تسبیح اور کچھ بھاشنوں نے سنبھال رکھا ہے۔ مگر عمل کی میزان پر شیخ کی طرح ہیں

شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

ایم کیوایم تو ایک جماعت ہے، کسی بھی سیاست دان کا نسب ڈھونڈیں تو وہی ہاتھ نکلتے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ جنرل ضیا کا جرم صرف یہ نہیں تھا کہ پنجاب میں جنرل جیلانی کے ذریعے نوازشریف کو مسلط کیا،بلکہ یہ بھی کہ کراچی کے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تارپود بکھیر دینے والی ایک پرتشدد جماعت یہاں مسلط کردی ۔ ایم کیوایم جنرل اسلم بیگ کے پنگھوڑے میں جھولتی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تک پہنچیں۔ لاڈ ایسے اٹھائے کہ الطاف حسین، فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کے گھر رات کھانے کو پہنچ گئے، بیگم صاحبہ سے فرمایا میں جہاں بھی جاتا ہوں، عورتیں میرے لیے طرح طرح کے کھانے پکاتی ہیں، آپ نے میرے لیے خاص کیا پکایا ہے، بیگم صاحبہ نے جواب دیا میں جنرل کے لیے نہیں بناتی تو آپ کون ہیں جن کے لیے کھانا بناؤں۔ جنرل اسلم بیگ نے بعد میں واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بیگم نے جواب تراخ سے دیا۔ تب کے محفوظ ہاتھ جنرل اسلم بیگ کے تھے،ائیر مارشل اصغر خان جن کے خلاف بعد میں مقدمہ عدالت لے گئے تھے۔اسلم بیگ فرماتے ہیں کہ موصوف 1965 کی جنگ میں ائیرفورس سے ہٹا دیے گئے تھے۔ ان کے بقول یہ ہاتھ محفوظ نہیں تھے۔ الطاف حسین نے بیگم صاحبہ کے جواب کے بعد ہاتھ دھو لیے۔ مگر گندے ہاتھ کا سارا پانی کراچی پر گرا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ یہاں جنرل پرویز مشرف کے محفوظ ہاتھ جادو دکھاتے تھے۔ایک ادارے کے مقامی سربراہ نے عادل صدیقی کو ایم کیوایم کی بدعنوانیاں دکھائیں، خوش نہ ہوں، بدعنوانیوں کا ریکارڈ احتساب کے لیے نہیں بلکہ انہیں اپنی ڈھب پر رکھنے اور مرضی سے ہانکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ عادل صدیقی نے بھیتراخ سے جواب دیا کہ پارٹیاں چلانی ہوتی ہیں، پھر کیا کریں۔ موصوف کیا فرماتے، ان کی بھی توسیع ہوئی تھی اور جنرل مشرف سے سفارش اسی جماعت کی تھی۔ ادارے قومی مفادات کے نام پر پارٹیوں کو ہانکیں گے، اور پارٹیاں کٹھ پتلی بن کر مجرمانہ حرکتوں میں شراکت دار بن جائیں گی تو پھر اسی نوع کے واقعات جنم لیں گے۔ اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری، سرجی!!
الطاف حسین کی 22اگست 2016 کی تقریر کے بعد ایم کیوایم کی عمارت جس دھماکے سے اڑی، موجودہ ایم کیوایم نے بہادر آباد کے لاحقے کے ساتھ اسی ملبے سے جنم لیا۔ الطاف حسین سے طوعاً وکرھاً لاتعلقی اِختیار کرنے والی ایم کیوایم اس کی وراثت سے کبھی لاتعلق نہیں ہوئی۔ ایم کیوایم کا ورثہ بھی کیا خوب ہے۔ بوری بند لاشیں، نشانہ کشی کی وارداتیں اور ڈرل مشینیں ایک طرف رکھیں۔ جنرل ضیا کے طیارہ حادثے کے بعد 1988 کے انتخابات میں ایم کیوایم کا چال چلن طے کردیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت قائم کرنے سے لے کر اکھاڑنے تک جب جس کام کی ضرورت پڑے گی ، وہ سر جی ! سرجی کہتے ہوئے سرانجام دے گی۔ اس دوران نوے کے عشرے میں جتنی حکومتوں کے بستر بچھے، ایم کیوایم طے شدہ وقت تک استراحت کرتی اور دام کھرے کرتی رہی۔اس دوران میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں قائم ہوتی رہیں، جب جس جماعت کو چلتا کیا گیا، ایم کیوایم کو خاموشی سے کھسکا دیا گیا۔ کسی جماعت کی حکومت قائم کرنے میںمدد مقصود رہی تو ایم کیوایم کو وہاں لڑھکا دیا گیا۔ یہ کام کرتے کرتے ایم کیوایم کے لیے خود اپنی صورت بھی پہچانے جانے کے قابل نہیں رہی۔ اب دیکھیے! کامران ٹیسوری کو ہی لے لیں! ایم کیوایم خود کل اس نام پر کس طرح تقسیم ہوئی اور آج یہ ان کے کوٹے پر گورنر ہیں۔ الطاف حسین کی تقریر کے اگلے روز 23 اگست کو ایم کیوایم بہادر آباد کے جس گروپ نے جنم لیا اور اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے با نی سے علیحدگی اختیار کی، وہ اعلان کسی اور نے نہیں، اپنے ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا تھا۔ مگر وہی ڈاکٹر فاروق ستار اسی ایم کیوایم سے رسوا کرکے نکالے گئے توا س کا سبب یہی کامران ٹیسوری تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے 2018 کے سینیٹ کا ٹکٹ کامران ٹیسوری کو دیا تو اس ایم کیوایم نے اِسے اتنا توہین آمیز سمجھا کہ خود ڈاکٹر فاروق ستار کو ہی پارٹی سے باہر اٹھا پھینکا۔اب یہ وہی ایم کیوایم ہے، جس نے کامران ٹیسوری کو اچانک چند ہفتے قبل پارٹی میں شامل کر لیا۔اگلے ہی ہفتے انہیں ڈپٹی کنوینر بنا دیا۔ ایم کیوایم رہنماں کو ماضی کے طرزِ عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے اس فیصلے پر جب بھی سوال کیا گیا تو گاں کی الھڑ دوشیزہ کی طرح جو اپنے محبوب کا نام لینے کے بجائے اِن، ان سے کام چلاتی ہے،ایم کیوایم نے بھی شرما، لجا کر اِن، ان کی ہی کاریگری دکھائی۔ کامران ٹیسوری کے ہاتھوں میں کوئی توا یسا جادو ہے، جس کی گردش نے در وبست کو نئی شکل وصورت دے دی ہے۔ دیکھیے سلیم کوثر بھی کب یاد آئے

اک ہاتھ کی جنبش میں در و بست ہے ورنہ
گردش وہی کوزہ ہے وہی چاک وہی ہے

ملتان کی شاعرہ فاطمہ نوشین نے مگر راز ہی کھول دیا

اک طرف چاک پہ کوزے کو گھمانے کا ہنر
اک طرف ہاتھ پہ روٹی کو بڑھانے کا ہنر

کامران ٹیسوری ہضم نہ ہو سکیں گے۔ اپنے کاریگروں کی بھی رسوائی کا سامان کریں گے۔ دبئی کے حنیف مرچنٹ کے قصے پھیلیں گے، جن کے اربوں روپے ڈکار لیے گئے۔ کراچی کی زمینیں بولیں گی، جہاں قبضے ہیں۔ لیاری ایکسپریس وے کے گرد چار سو پلاٹ چیخیں گے۔ سونے کے دھندے پھندے بن جائیں گے۔ گٹکا مافیا کی سرپرستی عذاب بنے گی۔ ابھی ایک ایس ایچ او کو بھیجا گیا آئی فون اچانک چیخے گا کہ ان کے علاقے کی کس زمین پر قبضے کو نظرانداز کرنے کی قیمت دی گئی۔ یہی نہیں ان گنت قصے چرچے بنیں گے۔ ایم کیوایم کا کیا ہے، وہ 1988 سے چہرے، چولے، چشمے، سرچشمے، نعرے، نخرے، وعدے، بندے بدلتے بدلتے اپنی صورت اتنی بگاڑ چکی ہے کہ انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ مگر سر جی! کامران ٹیسوری آپ پر بوجھ بنے گا۔ طبیعتیں اوب گئیں، بس کردیں سر جی

بشکریہ روزنامہ جرات