بھارتی حکومت کی کشمیر دشمن پالیسی کے باعث کشمیری سیب کی صنعت خطرے میں


 سری نگر: بھارتی حکومت کی کشمیر دشمن پالیسی کے باعث کشمیری سیب کی صنعت خطرے میں ہے۔ کشمیری سیبوں سے لدے ٹرکوں کو آزادانہ طریقے سے اپنی منزل کی طرف جانے سے روکا جارہا ہے۔پھلوں سے لدے 8000 کے قریب ٹرک  سری نگرجموں شاہراہ پر کئی دنوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ اس صورت  حال پر پیر کے روز  وادی کے تمام پھل کاشتکاروں نے کشمیر میں ہڑتال کی۔

تفصیلات کے مطابق بھارتی حکومت کی طرف سے غیر اعلانیہ اقتصادی ناکہ بندی کے پیش نظر ہزاروں ٹرکوں میں موجود پھل خراب  ہورہے ہیں ، کشمیری سیب بڑی تعداد میں بنگلہ دیش بھی بھیجے جاتے ہیں تاہم ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد کی طرف جانے والے ٹرک بھی روک دیے  گئے ہیں۔ بنگلہ دیش بھیجے  جانے والے سیبوں   کے لیے ڈیڈ لائن 29 ستمبر ہے ۔

غیر ملکی پھلوں کو بغیر کسی ٹیکس کے خطے میں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور  بھارت میں غیر ملکی سیبوں کو کشمیری سیب بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ ادھر کشمیری پھلوں کے تاجروں نے سیب کے کاشتکاروں سے سیب کی کٹائی آہستہ کرنے کے لئے کہا ہے کیونکہ پھلوں سے لدے ہزاروںٹرک گزشتہ کئی دنوں سے سرینگر جموں ہائی وے پر پہلے ہی پھنسے ہوئے ہیں۔

ایک ویڈیو پیغام میں سوپور فروٹ منڈی کے چیئرمین ظہور احمد بٹ نے کہا کہ گزشتہ 10 دنوں سے پھلوں سے لدے ہزاروں ٹرک سرینگر جموں شاہراہ پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے وادی کشمیرکے کاشتکاروں اور تاجروں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہاہم وادی کشمیر کے تمام پھل کاشتکاروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سیب کی کٹائی کے عمل کو آہستہ کریں تاکہ مزید نقصانات سے بچا جا سکے۔ستمبر کے آخری دنوں اور اکتوبر کے اوائل میں کٹائی کا سیزن عروج پر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی آٹھ دس دن کا وقت ہے جہاں ہم کٹائی کا انتظار کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہاہم کاشتکاروں سے بھی درخواست کر رہے ہیں کہ پھلوں کی پیٹیاں منڈیوں میں نہ بھیجیں کیونکہ وہاں پہلے سے ہی بڑی تعداد میں پیٹیاں موجود ہیں۔ہائی وے کی مسلسل بندش پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وادی کے تمام پھل کاشتکاروں نے آج پورے کشمیر میں ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکرہے کہ سیب کی صنعت جس کی مالیت 8000کروڑ روپے ہے، جموں و کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ تقریبا 35لاکھ لوگ براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیب کی تجارت سے وابستہ ہیں جو خطے کی جی ڈی پی کا تقریبا 8 فیصدہے۔تاہم پھلوں کے کاشتکاروں اور تاجروں کو 2019کے بعد سے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب مودی حکومت نے متعدد کشمیر دشمن پالیسیاں متعارف کرائیں جن میں کشمیریوں کی معاشی ناکہ بندی بھی شامل ہے۔

 کشمیری پھلوں پر پابندی کے خلاف شمالی کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرہ

مقبوضہ جموں و کشمیر میں پھلوں کی صنعت کو تباہ کرنے کی دانستہ بھارتی کوشش کے خلاف شمالی کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔

اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ کشمیری پھلوں کو منڈیوں تک پہنچانے  پر غیر اعلانیہ پابندی ختم کی جائے ۔ سوپور میں  پھل پیدا کرنے والے کاشتکاروں کے مظاہرے میں “ظلم کا سلسلہ بند کرو، جیسے نعرے لگائے گئے۔ مظاہرین سے  کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کی ریاستی شاخ  کے سربراہ محمد یوسف تای گامی نے بھی خطاب کیا ۔

انہوں نے کہا کہ شمالی ہو، وسطی ہو یا جنوب، کشمیر  ہر کوئی سیب کے کسانوں کی حالت دیکھ کر بہت پریشان ہے۔”انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہندوستانی اہلکار اس بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں کہ ٹرکوں کو جموں کا سفر کرنے کی ترجیح دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وادی سے باہر سفر کرنے والے کشمیریوں کے لیے ہائی وے صرف چار گھنٹے کے لیے کھولی جاتی ہے اور وادی میں سفر کرنے والوں کے لیے ہائی وے 12 گھنٹے کے لیے کھولی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف کشمیری پھل روکے جا رہے ہیں اور سیب کے کاشتکاروں کو سنا نہیں جا رہا ہے اور دوسری طرف غیر ملکی پھلوں کو بغیر کسی ٹیکس کے خطے میں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور متعدد شکایات کے باوجود بھارت میں غیر ملکی سیبوں کو کشمیری سیب بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان کی مودی سرکار سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کشمیریوں سے اس قدر ناراض کیوں ہے۔ مودی ہمارے سیب کو بازار میں آنے سے روک رہی ہے۔حکام سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، “انتظامیہ کو فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے