داتا دربار کے مہربان در و دیوار : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


شہر صدیوں کے سفر کے بعد خاص رنگ میں ڈھلتے ہیں۔ یہ خاص رنگ منفی بھی ہو سکتا ہے اور مثبت بھی۔ اس خصوصی رنگ میں دیگر کئی رنگوں کی آمیزش بھی شامل ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رنگ اُس شہر کی پہچان بن جاتا ہے۔ جب بھی اس کا تذکرہ ہو دماغ کی اسکرین پر وہ رنگ چھا جاتا ہے۔ لاہور ایک کرشماتی شہر ہے۔ اس کی آب و ہوا، زمین درخت، پرندے اور انسان طاقتور روحانی فضا کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔ یہاں سانس لینے والے تمام جانداروں پر اس فضا کی گہری چھاپ ہے۔ فطرتاً یہ سب سائے، سُکھ، رزق اور خوشبو تقسیم کرنے والے ہیں۔ ازل سے اس دھرتی کے انسانوں اور فطرت میں گہری سانجھ ہے۔ ہواؤں میں روحوں کو سرشار کرنے والے گیت رچے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سُکھ بانٹنے والی یہ دھرتی امن، محبت اور خدمتِ خلق کی بات کرنے والے اولیاء اللہ کی پسندیدہ سرزمین رہی ہے۔ اس شہر کی شناخت کے خانے میں کئی سنہری نام لکھے ہیں مگر اس کی پہچان ایک ہزار سال قبل غزنی سے یہاں تشریف لانے والے سید علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ برصغیر میں اسلام کی شمع کا نور پھیلانے میں لاہور میں رہائش پذیر داتا گنج بخشؒ کا اہم کردار ہے۔ لاہور شہر جو نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کا دل ہے، کی دھڑکن داتا کے دربار سے بندھی ہے۔ یہ مرکز ہے جس سے سب جڑت رکھتے ہیں۔

اکثر صوفیاء کے عرس کے موقع پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ دیگر ممالک میں ایسے دربار کیوں نہیں اور وہاں ایسے عرس کیوں نہیں ہوتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ملک کی علمی، دینی، اخلاقی، ثقافتی اور روحانی اقدار کی منتقلی کے اپنے جداگانہ سلسلے ہیں لیکن ہر معاشرے میں علم کا نور بانٹنے والے یہ بزرگ ہوتے ہیں۔ کہیں سقراط، کہیں ملٹن، کہیں بھگت کبیر اور کہیں بابا فرید۔ یہ ربّ کی منشاء کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری مخلوقِ خدا کی تربیت ہے۔ اسلام کی بات کریں تو ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا مگر اولیاء کا سلسلہ جاری و ساری رکھا گیا ۔ یہ اولیاء نبی اور ربّ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے اور اپنے عمل سے سمجھاتے ہیں۔ معاشرے میں رہنے والے انسان عقل کے مختلف مدارج پر فائز ہوتے ہیں۔ انہیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ صوفی اور ولی ایک استاد اور مرشد کی طرح ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان کو مادیت سے روحانیت، شر سے خیر، تخریب سے تعمیر اور منفی سے مثبت کی طرف لے جاتا ہے تا کہ دنیا میں اچھی قدریں پنپ سکیں۔ صوفی احترامِ آدمیت اور خدمتِ خلق کا پیامبر ہے۔ اس کا مقصد مخلوقِ خدا کی خوشنودی اور داد رسی ہے کیونکہ اسے خبر ہے کہ اسی وسیلے سے وہ خدا کی خوشنودی حاصل کر پائے گا۔ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتا۔ کسی پر فتویٰ نہیں لگاتا، کسی کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا، کسی پر دَر بند نہیں کرتا۔ اس کا دَر اور دستر خوان مجرم، گنہگار اور نیکوکار سب کے لئے کھلا رہتا ہے۔ صوفی اور ولی کی کوئی بات خدا کی رضا سے متصادم نہیں ہوتی۔ ہر کام خدا کی منشاء سے عمل میں آتا ہے۔ دعا کو قبولیت کی سند عطا ہوتی ہے۔

داتا دربار پر کئی طرح کے خزانے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ مادی ضرورت پوری کرنے کے لئے لنگر اور روحانی کے لئے محفل حمد، محفل نعت، محفلِ سماع اوردیگر محافل جو ہر وقت جاری رہتی ہیں، قرآن پڑھا جاتا ہے، درود و سلام کا ورد کیا جاتا ہے۔ مادی و روحانی ضرورت اور رہنمائی کے علاوہ اخلاقی، ثقافتی اور انسانی قدروں کی ترویج میں اس دربار کا گہرا کردار ہے۔ رب کرے اس کے کشادہ صحن میں لنگر کی تقسیم جاری رہے۔ اس کے برآمدے بے گھر لوگوں کے لئے جائے امان بنے رہیں۔ اس کے ستون مہربان کندھے کا روپ دھارے رہیں جس پر سر رکھ کر لوگ اپنا دکھ بیان کر کے اپنا کتھارسز کر سکیں، جی بھر کر رو سکیں اور روحانی سرخوشی سے روح کا دامن بھر سکیں۔ جو لوگ اس دربار کی زیارت کرتے ہیں انہیں کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ صوفی سب سے بڑا ماہرِ نفسیات ہے۔ اس کا طریقۂ علاج بہت مؤثر ہے۔ انسان ظاہری دیکھ بھال میں الجھا رہتا ہے اور باطن میں بچھے جالوں سے بے خبری اسے نڈھال کر دیتی ہے۔ صوفی اندر جمع کثافتوں کی طرف توجہ دلا کر انسان کی تطہیر کرتا ہے۔ میں جب بھی دُکھی ہوتی ہوں داتا دربار پر حاضری دیتی ہوں، وہاں گھنٹوں بیٹھ کر اپنے رب سے باتیں کرتی ہوں۔ اس دربار کے مہربان در و دیوار میری ڈھارس بندھاتے ہیں، میرے تمام آنسو اور دُکھ خود میں جذب کر کے مجھے روحانی دولت سے مالا مال کر کے زندگی کی رہگزر پر زیادہ توانائی کے ساتھ خدمتِ خلق کی ترغیب دیتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ