پھر “ڈو مور”کی گردان۔۔۔تحریر:وجیہ احمد صدیقی


امریکہ کی طرف سے ایک بار پھر “ڈو مور”کی گردان شروع ہوگئی ہے کہ” پاکستان تمام دہشت گردوں کے خلاف مسلسل اور موثر کارروائی کرے” ۔یہ وہی امریکہ ہے جو افغانستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے داخل ہوا تھالیکن دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت جس کے ساتھ دنیا 40 سے زیادہ ممالک کی تمام بڑی بڑی فوجی قوتیں تھیں جدید ترین ٹیکنالوجی تھی، افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں ناکام رہی، بجائے اس کے کہ امریکی اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیتےکہ کہاں کمزوری ہے؟کیا غلطی ہوئی ہے ۔

لیکن امریکی اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے انہوں نے اپنی تمام تر ناکامی کا الزام پاکستان پر لگادیا۔ کیونکہ بھارت ان کو یہی سبق پڑھا رہا تھا۔جبکہ پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کمک کی فراہمی کے لیے راستہ بھی فراہم کیا اور اس جنگ میں اپنی اقتصادیات کو داؤ پر لگاتے ہوئے 100 ارب ڈالر سالانہ نقصان بھی برداشت کیا،لیکن اس کے باوجود کہ امریکہ نے پاکستان کا یہ نقصان نہیں پورا کیا ۔بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر جو رقم پاکستان کو دی جانی تھی وہ بھی بار بار روکی گئی ۔

بلکہ پاکستان کے ادائیگی کے مطالبے پر امریکہ نے جنوری 2018 میں پاکستان سے سیکیورٹی تعاون کی معطلی کا اعلان کردیا اور کولیشن سپورٹ فنڈ کا جو ادھار امریکہ پر قرض تھا وہ بھی نہیں ادا کیا۔یہ رقم 30 کروڑ ڈالر تھی جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھا۔پاکستان کے ساتھ سیکورٹی تعاون کی معطلی کے باوجودترجمان پینٹاگون نےکہا تھا کہ “پاکستان پر حقانی گروپ سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خلا ف بلا امتیاز کارروائی کے لیے دباو ڈالتے رہیں گے۔

طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے یا گرفتار کرکے بے دخلی کے لیے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے۔”پھر کیا ہوا کہ انہی طالبان کے سامنے امریکہ نے ہتھیار ڈال دیے اور اچانک راتوں رات افغانستان سے امریکی پرواز کرگئے اور اپنے حامیوں کو افغانستان میں بے یارو مدد گار چھوڑ گئے۔آج ستمبر 2022 میں ایک بار پھرامریکہ کی جانب سے ایک بار پھر یہ مطالبہ سامنے آگیاکہ پاکستان دہشت گردوں کے ہر گروپ کے خلاف موثر اور مسلسل کارروائی کرے۔

چند دن پہلے یعنی منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ واشنگٹن توقع کرتا ہے کہ اسلام آباد تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف “مستقل کارروائی” کرے گا ۔پاکستان امریکہ کے ساتھ اس مجوزہ فوجی سودےجس کی لاگت 450 ملین ڈالر ہے کہ امریکہ پاکستان میں ایف سولہ لڑاکا طیاروں مرمت اور دیکھ بھال کا انتظام کرسکے ، لیکن امریکہ اس کے ساتھ یہ شرط عائد کررہا ہے پاکستان یہ طیارے ” دہشت گردوں ” کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کرے گا۔

یہ امریکی امداد نہیں ہے پاکستان کی جانب سے سودا ہے لیکن امریکہ کا طنطنہ تو دیکھئے کہ سودے کےساتھ بھی اپنی شرائط عائد کررہا ہے ۔منگل کوپریس بریفنگ کے دوران نیڈپرائس نے کہا کہ “پاکستان کا F-16 پروگرام، یہ امریکہ اور پاکستان کے وسیع تر دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم حصہ ہے، اور یہ مجوزہ فروخت F-16 کے بیڑے کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان کی موجودہ اور مستقبل کے انسداد دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو برقرار رکھے گی۔

” یہ بات قابل تشویش ہے کہ امریکہ پاکستان کے حوالے سے مستقبل میں دہشت گردی کی پیش گوئی کررہا ہے پاکستان تقریبا4 دہائیوں سے امریکہ کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہے ۔پہلے سوویت یونین کے ساتھ افغان جہاد میں پاکستان میں دہشت گردی ہوتی رہی اوراس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر پڑتے رہےکہ اس عرصے میں نائن الیون کا واقعہ پیش آگیاجس کا الزام لگا تو اسامہ بن لادن پر لیکن امریکہ کا غصہ “نزلہ بر عضو ضعیف “کے مترادف پاکستان اور امریکہ پر گرا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور اپنی قوت کا اظہار کیا تھا ۔

دنیا کو خاص طور پر امریکہ کو پاکستان کی یہ کامیابی ہضم نہیں ہوئی تھی۔اس لیے پاکستان کو ایسے معاملات میں الجھانا ضروری تھا جہاں اس کی سیکورٹی کو خطرات لاحق ہوں ۔سوویت یونین کے خاتمے کے لیے جن جہادی گروپوں کو امریکہ نے ڈالروں سے سینچا تھا وہ اب اس کے لیے کسی کام کے نہیں رہے تھے امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ امریکہ کے دانشورسیموئیل پی ہٹنگٹن نے”تہذیبوں کے تصادم ” ‎Clash of Civilizations کا نظریہ پیش کیا تھااورانہیں نظر آیا کہ جہاد کے جس شیر کی دم کو کھینچ کر انہوں نے بیدار کیا تھاوہ کہیں انہی پر نہ جھپٹ پڑے۔1996 میں یہ نظریہ پیش کیا گیااور2001 سے تہذیبی تصادم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔2001 میں 11/9 کاپر اسرار واقعہ پیش آیا یہ ابھی تک ایک معمہ ہے کہ محض جہازوں کے ٹکرانے سے وہ بلند و بالا عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں اورپینٹاگون کا قلعہ بھی جہاز کے ٹکرانے تباہ ہوگیا۔

امریکہ کی وہ تمام ٹیکنالوجی کہاں چلی گئی جو کسی بھی جہاز کو اس کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک لیتی ہے وہ اینٹی میزائیل سسٹم کہاں گیا ؟ اس واقعے کا قبل از وقت امریکی محکمہ دفاع کو کیوں علم نہیں ہوا؟یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں ۔اتنی بڑی فوج اتنی جدیدٹیکنالوجی ہونے کے باوجود امریکہ دہشت گردی کے اس حملے کو نہیں ٹال سکاتو پاکستان سے یہ توقع کیوں کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر پاکستان ہی حملہ کرے ۔یہ امریکہ کی جنگ میں اس کا ساتھ دینے کا ہی ثمر ہے کہ 2004 سے پاکستانی افواج اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں سے برسر پیکار ہیں کبھی قبائلی علاقوں میں اور کبھی بلوچستان میں ، لیکن یہ آگ ہے کہ بجھنے میں ہی نہیں آرہی ہے ۔ اس لیے کہ امریکہ کے اسٹریٹیجک اتحادی اس پر مسلسل تیل ڈالتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے ان کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں ۔لیکن انہیں کبھی اس عمل سے باز رہنے کے لیے نہیں کہا جاتا۔پاکستان نے ایف سولہ طیارے اپنی رقم خرچ کرکے خریدے تھے تاکہ اپنی سرزمین کا دفاع کرسکے نہ کہ ان طیاروں سے اپنے ہی ملک پر بمباری کی جائے ۔جیسا کہ امریکہ چاہتا ہے اس پریس کانفرنس میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ “یہ ایک ایسا فضائی بیڑا ہے جو پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے، اور ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف مستقل کارروائی کرے گا”۔امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتا ہے ہم اپنے ملک میں کسی شورش کو کسی طرح رفع کرتے ہیں اس کی حکمت عملی ہمیں ہی بنانی چاہیے اگر ہم امریکہ یا ان جیسے دوسرے ممالک کی حکمت عملی اپنائیں گے تو ملک میں ہر وقت کہیں نہ کہیں فوجی آپریشن چلتا رہے گا ایک طرف ہمارے فوجی جوان شہید ہوتے رہیں گے دوسری جانب گمراہ پاکستانی اپنی جان سے جاتے رہیں گے ، کہیں تو اس سلسلے کو رکنا چاہیے ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری اپنی حکمت عملی ہونی چاہیے اس میں ضروری نہیں ہے کہ جنگ اور حملے ہی کیے جائیں بات چیت اور مذاکرات سے بھی دہشت گردی کو روکا جاسکتا ہے ۔لیکن امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں شورش جاری رہے یہی وجہ ہے کہ پرائس نے کہاکہ “پاکستان متعدد حوالوں سے انسداد دہشت گردی کا ایک اہم پارٹنر ہے اور ہماری دیرینہ پالیسی یہ ہے کہ ہم امریکی مفادات کی خاطرایسے پیکج فراہم کرتے ہیں ۔”واضح رہےامریکی کانگریس کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس ملٹری پیکج میں پاکستان کو کوئی نئی صلاحیت، ہتھیار یا گولہ بارود نہیں دیا گیاہے۔40 سال قدیم یہ لڑاکا جہاز امریکہ کے پاس نئی شکلیں اختیار کرچکے ہیں لیکن پاکستان کو وہ نئی ٹیکنالوجی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور پاکستان پر یہ پابندی لگائی جاتی ہے کہ ان طیاروں کو بھارت کے خلاف نہیں استعمال کیا جائے گا لیکن بھارت کو ئی ٹیکنالوجی دیتے وقت یہ شرط نہیں عائد کی جاتی کہ وہ اسے اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف نہیں استعمال کرے گا۔دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹکا رکھی ہے امریکہ نے پاکستان کا اقتصادی طور پر گلا گھونٹ رکھا ہے۔امریکہ سے کون کہے گا کہ ہماری گردن تو چھوڑو۔