الیکشن کمیشن کے سندھ سے ممبر نثار درانی کی تعیناتی کالعدم قرار دینے کیلئے فواد چوہدری کی درخواست خارج


اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس ا سلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر الیکشن کمیشن سندھ نثار احمد درانی کی تعیناتی کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کی جان سے دائر درخواست ناقابل سماعت قراردے کر خارج کردی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے قراردیا ہے کہ آئین میں ممبر کی تعیناتی اور ہٹانے کا طریقہ کار موجود ہے جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے فواد چوہدری کی جانب سے ممبر الیکشن کمیشن سندھ نثار احمد درانی کی تعیناتی کا کالعدم قرارددینے کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ممبر الیکشن کمیشن کی تعیناتی پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے کی، تعیناتی میں غلطی ہو تواس کی درستگی کا فورم موجودہے۔

دوران سماعت فواد چوہدری کے وکیل فیصل فرید حسین نے کہا کہ نثار درانی کی تعیناتی آرٹیکل 216کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ آئینی تقرری ہے، ممبر کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت نے آئین کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کسی معاملہ میں غیر ضروری مداخلت نہیں کریں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایسی مداخلت نہیں کریں گے جس سے آئینی عہدے سے متعلق تنازعہ کھڑا ہو، آپ آئین کی شق دوبارہ پڑھ لیں، یہ بہت واضح ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین فورم بھی مہیا کررہا ہے اور طریقہ کار بھی بتارہا ہے۔

فیصل فرید حسین نے کہا کہ اس تعیناتی میں کچھ فرق ہے، یہ وہاں اپلائی ہو گا جہاں مس کنڈکٹ آئے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ کب ممبر تعینات ہوئے؟اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نثار درانی 24جنوری2020کو ممبر الیکشن کمیشن سندھ تعیناتی ہوئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت پر آئین پر عملدرآمد کرنا لازم ہے۔ اُس وقت پارلیمانی کمیٹی نے یہ تعیناتی کی تھی، فواد چوہدری کی پارٹی بھی اس وقت تعیناتی میں شامل تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تقرری آئینی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہوئی، اسی طرح ہٹایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی فورم ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے ممبر کو ہٹانے کا طریقہ کار کیا ہے؟اس پر وکیل نے بتایا کہ ممبر الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آئین کی بالادستی کا احترام کرے گی اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ ممبر الیکشن کمیشن کا کیس ذرا مختلف ہے عدالت آئینی اختیار استعمال کرسکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار بھی آئین کے مطابق ہی ہے۔ آئین ممبر الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا فورم فراہم کرتا ہے۔ عدالت آئینی اختیار وہاں استعمال کرتی ہے جہاں متعلقہ فورم موجود نہ ہو۔ ممبر الیکشن کمیشن کی تعیناتی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوتی ہے، طے نہ ہو پائے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جاتا ہے۔ فواد چوہدری کے وکیل کا کہنا تھا کہ نثاردرانی کی تقرری ہی غیر قانونی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاآپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے غلط تعیناتی کی؟اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ کوئی غلطی بھی ہوسکتی ہے،ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز معلوم نہ ہوئی ہو جو بعد میں سامنے آئی۔

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی غلطی ہو گئی تو پھر اس کو درست کرنے کا فورم موجود ہے۔