ڈیرہ اسماعیل خان (صباح نیوز)وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کا کام ہے۔ ہمارے دوست اور برادر ممالک یقیناً اس وقت ہماری امدار کررہے ہیں اور میں ان کا فرداً، فرداً اور اجتماعاً بھی شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں۔ یہ چیلنج بہت بڑا ہے اس کے لئے ہمیں ایک ، ایک پائی کو امانت جان کر حقداروں کے قدموں میں نچھاور کرنا ہے، اس کے اوپر (ن)لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف)اوردرجہ بدرجہ پارٹیوں میں کوئی سمجھوتہ نہیں سکتا ۔میں قطعاً برداشت نہیں کروں گا کہ ایک پائی بھی کسی بھی ذریعے سے بغیر حق اوراستحقاق کسی کے پاس پہنچ جائے اور حقدار کو اس حق ہر صورت دلوایا جائے گا۔ پورے پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی سے زیادہ تباہی میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت، وفاقی اور صوبائی ادارے اور افواج پاکستان سب مل کر ذاتی پسند اور ناپسند اور سیاست سے بالاتر ہو عوام کی خدمت کے لئے حاضر ہیں۔لاکھوں گھر زمین بوس ہو گئے ہمیں ان کے پیسے اور وسائل دینے ہیں،ہم یہ مشورہ کررہے ہیں کہ کیا گھروں کے لئے نقد رقوم دی جائیں یا گھر بنا کردیئے جائیں۔جب تک آخری متاثرہ گھرانہ اپنے گھر میں آباد نہیں ہو جاتا حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی، میں اپنی ذمہ داری نبھائوں گا۔
ان خیالات کااظہار وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سیلاب سے متاثرہ سگو پُل کا دورہ کرنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر مقامی انتظامیہ کی جانب سے سیلاب سے ہونیوالے نقصانات اور ریلیف سرگرمیوں کے حوالہ سے وزیراعظم شہباز شریف کو بریفنگ دی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں ایک مرتبہ پھر مصیبت کی گھڑی میں سیلاب متاثرین کے پاس حاضر ہوا ہوں تاکہ متاثرین سے حال احوال لیا جائے اور صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ میں پچھلی مرتبہ جب ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان آیاتھا تو یہ ڈویژن اور یہ علاقے حالیہ بارشوں کی تباہی سے قبل جو ریلہ آیا تھا اس کی تباہی سے بمشکل نکل رہے تھے اور میں نے مختلف جگہوں پر جاکر اپنی ماؤں، بہنوں اور بزرگوں کو تسلی دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان نے صرف اس ڈویژن میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہر مقام پر جہاں پر رسائی ابھی تک ناممکن ہے وہ وہاں پر اپنی استعداد کار سے بھی بڑھ کر خدمت انسانیت کے لئے دن رات کردارادا کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے کہنے دیں کہ سوات کے علاقہ کے حوالے سے انسانی فاش غلطی ہوئی ہے کہ دریا کے پیٹ میںہوٹلوں کا قیام، یہ نہ قانون اجازت دیتا ہے، نہ یہ فطرت کے نظام کے مطابق ہے اورنہ ہی کسی طریقہ سے اس کی اجازت دی جاسکتی تھی، جب ریلہ آیا تواس نے کچھ نہیں چھوڑا اور ہوٹل اور گھر بہہ گئے۔ گلگت بلتستان کے علاقہ غذر میں سیلابی ریلہ آیا اوراس نے گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اوراس کے ساتھ ایک خاندان کے آٹھ افراد لقمہ اجل بن گئے، صرف ان کا بزگ والد اور ایک معذور بیٹی بچے۔
ان کا کہنا تھا کہ وسائل محدود ہیں ، سب جانتے ہیں کہ پچھلی حکومت نے وسائل کی کس طرح بربادی کی اس کی تفصیل میں جانے کا آج موقع نہیں کیونکہ آج سیاست کوہم نے ایک طرف رکھنا ہے اور خدمت کے فرض کو نھانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مخلوط وفاقی حکومت نے پہلے 28ارب روپے ہر اس گھرانے کے لئے مختص کئے جو سیلاب سے متاثر ہوا، پورے پاکستان میں 25ہزار روپے فی کس خاندان فراہم کئے جارہے ہیں، اس وقت جب میں بات کررہا ہوں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ 20ارب روپے شفاف طریقہ سے تقسیم کئے جاچکے ہیں، جوں، جوں سیلاب کی تباہی بڑھتی گئی توں، توں ضروریات کا تخمینہ بھی بڑھتا گیا، گزشتہ روز ہم نے حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا کہ اب یہ تخمینہ 28ارب کی بجائے70ارب روپے پر جاپہنچا ہے۔ یہ سارا مالی بوجھ خاندانوں کو 25ہزار روپے کی فراہمی کے حوالہ سے وفاقی حکومت اٹھا رہی ہے اور باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ باقی42ارب روپے کہاں سے آئیں گے اللہ تعالیٰ کی ذات اس کاانتظا م کرے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہر خاندان جو بارشی پانی اور سیلاب سے متاثر ہوا ہے اس کو ہم 25ہزار روپے پہنچائیں گے جن کے پیارے دنیا سے چلے گئے ان کو10،10لاکھ روپے معاوضہ دے رہے ہیں۔ پاکستان اورخاص طور پر سندھ میں لاکھوں ایکڑ پر لگی چاول، کپاس اور کھجور کی فصل تباہ ہو گئی، اس طرح کی تباہی دیکھتی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے جب مشکل آئے تو ہمت باندھو اور مجھے یاد کرو اور اتفاق اور اتحاد سے کام لو اور میں اپنا فضل کروں گا۔جہاں پر وفاقی حکومت وسائل چاروں صوبوں، گلگت بلستان اور آزاد جموں وکشمیر کے لئے مہیا کررہی ہے وہاں پر صوبے بھی اپنا حصہ ملا رہے ہیں اور انہیں مزید آگے بڑھنا ہو گا، ہم نے گزشتہ روز فیصلہ کیا ہے کہ این ڈی ایم اے کے زریعہ دو لاکھ خیمے خریدیں گے اور میری پوری کوشش ہے کہ دو ہفتے میں یہ دو لاکھ خیمے مہیا ہو جائیں اور پھر تمام صوبوں میں حصہ بقدر حصہ عوام کو فراہم کریں گے۔ کے پی میں سیلابی پانی اتر رہا ہے لیکن سندھ میں ابھی پانی موجود ہے اور ہمیں اب پانی سے پھیلنے والی وبائی امراض کا چیلنج درپیش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹانک میں پہلا 100گھروں پر مشتمل منصوبہ ٹانک میں بنایا جارہا ہے اور ہم دو ہفتے بعد جاکر اس کا سنگ بنیاد نہیں رکھیں گے بلکہ گھر بن چکے ہوں گے اوران کا افتتاح کریں گے۔ ہم نے ابتداء خیبر پختونخوا سے کی ہے اور ایک مخیر شخص ہے جو کروڑوں روپے لگا کر گھر مہیا کررہا ہے، میں مولانا فضل الرحمان ، پیپلز پارٹی اور دیگر دوستوں کو ساتھ لے کر جاؤں گااور ہم دیکھیں گے کہ اگر یہ نمونہ کامیاب ہے تو پھر ہم اسے پورے ملک میں پھیلائیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ کیا یہ گھر گرمی اور تمام ضروریات پوری کرسکتا ہے کہ نہیں پھر اس کے لئے ہم آگے بڑھیں گے۔ لاکھوں گھر زمین بوس ہو گئے ہمیں ان کے پیسے اور وسائل دینے ہیں،ہم یہ مشورہ کررہے ہیں کہ کیا گھروں کے لئے نقد رقوم دی جائیں یا گھر بنا کردیئے جائیں۔ یہ دریائی نہیں بارشی سیلاب ہے۔ تاریخ میں 30سال میں سندھ میں سب سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، ہمیں مقامی علاقوں میں چھوٹے ڈیم بنانا ہوں گے۔
اس موقع پر جمیعت علماء اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان، وفاقی وزیر برائے مواصلا ت مولانا اسعد محمود، وزیراعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام خان اور دیگر اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔