ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جیلوں میں رکھا جا رہا ہے،سابقہ جبری گمشدہ قیدیوں کا پشاور جیل سے پاکستانی عوام کے نام کھلا خط


پشاور(صباح نیوز) ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جیلوں میں رکھا جا رہا ہے،سابقہ جبری گمشدہ قیدیوں کا پشاور جیل سے پاکستانی عوام کے نام کھلا خط۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں فوجی عدالتوں نے ہمیں سزائیں سنائیں،پشاور ہائیکورٹ نے رہائی کے احکامات جاری کیے مگر معاملہ اب سپریم کورٹ میں لٹکا ہوا ہے۔

سابقہ جبری گمشدہ قیدیوں  نے پشاور جیل سے پاکستانی عوام کے نام کھلا خط میں کہا  ہے کہ ہم وہ بد قسمت لوگ ہیں جو 2009 میں آپریشن کے دوران قیدی بنا لیے گئے ہیں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ آ کر اپنی کلیرنس کروائیں اور تین دن کے اندر اندر واپس اپنے گھروں کو جائیں۔ کیا پتہ تھا کہ تین دن 14 سالوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔2018 میں فوجی عدالتوں نے ہمیں مختلف قسم کی سزائیں سنائیں۔ ہم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پشاور ہائیکورٹ نے الزامات ثابت نہ ہونے کی بنا پر ہماری رہائی کے احکامات جاری کردیے۔ بدقسمتی سے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا گیا اور ہماری رہائی روک دی گئی اور تا حال رکی ہوئی ہے۔ ہم میں سے بعض نے سپریم کورٹ میں کیس جمع کروایا لیکن سپریم کورٹ ابھی تک خاموش ہے اور اس فیصلے کی سماعت تک کے لیے تیار نہیں ہے۔آ پ کے علم میں ہوگا کہ سیاسی معاملات کے لیے سپریم کورٹ آدھی رات کو بھی متحرک ہو جاتی ہے لیکن جس کیس سے ہماری زندگی وابستہ ہے وہ گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاست اور عسکری قیادت بار بار کہہ رہی ہے کہ جو بھی آئین کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اس کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے رہیں گے۔ لیکن یہاں توالٹی گنگا بہتی ہے۔ جن لوگوں نے آپریشن کے دوران افغانستان کی طرف راہ فرار اختیار کی اور آئین کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کیا ان کو پورے پروٹوکول کے ساتھ2016میں واپس لایا گیا۔ اور تین مہینوں کے اندراندر گھروں کو چلے گئے۔دوسری طرف ہم ہیں جن کو قانون کی پاسداری کی سزا دی جارہی ہے۔ شاید ہم بے چاروں کو موجودہ مذاکراتی عمل میں غلط استعمال کیا جا رہاہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جیلوں میں رکھا جا رہا ہے۔

قیدیوں نے  پاکستانی عوام کے نام اپنے خط میں مزید لکھا کہ اب ہم فیصلہ آپ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کو 14 سالوں میں طالب ثابت نہ کیا جا سکا۔ قانون نے ان کو سب الزامات سے بری الزمہ قرار دیا اور جن کے جیلوں میں ہونے کے باوجود طالبان کا کام رک نہیں گیا بلکہ سست روی کا شکار بھی نہیں ہوا۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں۔ ان کے والدین ان کے لیے تڑپ رہے ہیں اور بہت سے تو ایسے بھی ہیں کہ اپنی اولاد کی جدائی میں شدید جسمانی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوگئے ہیں یا موت کے آغوش میں چلے گئے ہیں۔ ان کے بچے باپ کے جیتے جی یتیم ہو گئے ہیں اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ وہ بے چارے چودہ سال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم طالب نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے پر امن اور وفادار شہری ہیں۔ خط میں انھوں کہا کہ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہم اس ملک کے باشندے نہیں ہیں۔ کیا ہمیں آزاد فضا میں سانس لینے کا حق حاصل نہیں ہے کیا؟