جن لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں جمہوریت کا مزا چکھا ہے، ان کی یادیں کسی مارشل لا دور سے بھی زیادہ تلخ ہیں۔ بے شمار لوگوں کو جمہوری نظام کے ساتھ ان کا تعصب سچ بولنے سے روکتا ہے، ورنہ جماعتِ اسلامی کو اپنے درویش صفت رکنِ اسمبلی ڈاکٹر نذیر شہید کی خون میں لت پت لاش یاد نہیں، انہیں ہائی کورٹ میں اپنے امیر میاں طفیل محمد کا آنسوؤں میں ڈوبا بیان بھول گیا، جو انہوں نے جیل میں ہونے والے بدترین تشدد کے بارے میں دیا تھا۔ محمود خان اچکزئی کو کوئٹہ میں ہونے والا وہ دھماکہ یاد ہو گا، جس میں ان کے والد عبدالصمد اچکزئی کی جان گئی تھی۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو اپنے والد خواجہ محمد رفیق یاد آتے ہوں گے جنہیں پنجاب اسمبلی کے عقب میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ غلام مصطفی کھر نے تو بہت کچھ بھگتا ہے۔ میاں افتخاری تاری سمیت اس کے کئی ساتھی لاپتہ افراد تھے جنہیں ایک خفیہ مقام دلائی کیمپ میں کئی سال رکھا گیا تھا۔ الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی اور حسین نقی تو ان لاتعداد صحافیوں میں سے آج بھی زندہ ہیں جن کے نہ صرف اخبارات بند کئے گئے بلکہ انہیں کئی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑے۔ سردار اختر مینگل کو اپنا بھائی تو ضرور یاد آتا ہو گا جس کی لاش کو وہ آج تک ترستے ہیں۔ عطا اللہ مینگل کی حکومت کو ذاتی انا پر قربان کر کے جس آرمی ایکشن کا آغاز کیا گیا، اس کے زخم آج بھی بولتے ہیں۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی کا کمال یہ ہے کہ یہ لوگوں کے زخم تازہ رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرتی رہتی ہے، جیسے بلوچستان میں آرمی ایکشن کے انچارج جنرل ٹکا خان کو پہلے پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا اور پھر پنجاب کا گورنر بھی لگا دیا۔ حبیب جالب یوں تو ہر دور میں قید رہا، لیکن بھٹو کے دور میں اسے غداری کے مقدمے میں جیل بھیجا گیا تھا۔ یہ وہی حیدر آباد سازش کیس تھا جس میں ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری جیسے سرداروں کے ساتھ نحیف و نزار حبیب جالب بھی غداری کا مقدمہ بھگت رہا تھا۔ پنجاب کے آرٹسٹ وزیر اعلی حنیف رامے کی بیوی شاہین رامے کھانا لئے جیل کے دروازے پر کھڑی رہتی لیکن کوئی ملاقات نہ کرواتا۔ ایسی جمہوری فضا میں گجرات کے شیشانوالہ دروازہ سے تھوڑی دور ایک بہت بڑی کوٹھی کے وسیع و عریض لان میں چوہدری ظہور الہی محفل لگایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں الیکشن ہوتے تھے، اس لئے سٹوڈنٹس یونین کے ممبران اپنی نوجوان افرادی قوت کی وجہ سے بہت اہمیت کے حامل تھے۔ جاوید ہاشمی، فرید پراچہ، حسین حقانی، حافظ ادریس، لیاقت بلوچ، بارک اللہ خان، شیخ رشید اور ایسے لاتعداد چہرے جو بعد میں پاکستانی سیاست کی افق پر ابھرے، اسی دور میں سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کی عطا ہیں۔ میں چونکہ زمیندار ڈگری کالج کی یونین کا انتخاب جیت چکا تھا، اس لئے مجھے چوہدری ظہور الہی کے لان میں برپا ہونے والی محفلوں میں خاص جگہ ملتی تھی۔ چوہدری صاحب پنجاب کے ان چند ممبرانِ اسمبلی میں سے تھے جو ستر کے الیکشنوں میں بھٹو کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود اپنی سیٹ بچا سکے تھے۔ بھٹو کے خلاف پہلی بڑی تحریک قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لئے چلائی گئی تھی۔ یوں تو اس کا مرکز و محور مساجد و علما تھے لیکن چوہدری صاحب چونکہ اس کا حصہ تھے، اس لئے دن بھر کے جلسوں و جلوسوں کے بعد شام کو ان کے لان میں دیر تک محفل سجتی۔ تحریکِ ختم نبوت کے اولین سالاروں میں برصغیر کے سب سے بڑے شعلہ بیان مقرر سید عطا اللہ شاہ بخاری کا نام آتا ہے۔ ان کے فرزند سید عطا الحسن بخاری میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر رہتے تھے۔ ہم دونوں گلی سے نکلتے، راستے میں بٹ کی دکان سے گولی والی سوڈے کی بوتلیں پیتے اور اس محفل میں جا نکلتے۔ پاکستان کے سیاسی افق پر موجود شاید ہی کوئی سیاست دان ایسا ہو گا جو بھٹو کی قید بچا ہو، وہ اس محفل میں ضرور آ نکلتا۔ اسی دوران گجرات کی ایک نشست پر ضمنی الیکشن آ گئے۔ بھٹو مقابلہ برداشت نہیں کیا کرتا تھا۔ اس الیکشن سے پہلے گجرات شہر میں انور سماں کے قتل کے بعد اعتزاز احسن کو ٹکٹ ملا تو بیچارے ڈپٹی کمشنر کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اسے بلا مقابلہ جیتنا چاہئے۔ اس غریب نے چوبیس امیدواروں کو ایسا غائب کیا کہ کوئی کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے نہ آ سکا اور بیرسٹر اعتزاز احسن بلا مقابلہ منتخب ہو گئے لیکن اس دفعہ انتظامیہ کی گرفت کمزور پڑ چکی تھی اور امیدواروں کی وجہ سے الیکشن کروانے پڑے تھے۔ یہ پوری انتخابی مہم چوہدری صاحب کی قیادت میں چل رہی تھی اور پورے ملک سے نوجوان طلب علم رہنماؤں کا جتھہ بارک اللہ خان کی قیادت میں گجرات میں جمع تھا۔ بارک اللہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا ابتدائی صدر تھا جس پر امیر محمد خان نے شاہی قلعے میں بدترین تشدد کروایا تھا۔ اس جتھے میں جاوید ہاشمی بھی تھا جسے بھٹو نے امیر محمد خان کی روایت دہراتے ہوئے شاہی قلعے میں برف کے بلاک کے ساتھ بندھوایا تھا۔ شیخ رشید اپنے جذباتی لہجے اور قدرتی بالوں کے ہمراہ جلسوں میں گرجتا تھا۔ چوہدری ظہورالہی اس وقت پورے ملک کی اپوزیشن کے دائرے کا وہ نکتہ تھے جہاں سب اکٹھا ہوتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی محفلوں سے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویزالہی کو شاید عمدا دور رکھا جاتا تھا۔ لاہور کا ظہورالہی ہاؤس بھی پہلے ختمِ نبوت کی تحریک کا مرکز بنا اور پھر بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی سرگرمیوں کا محور۔ چوہدری صاحب کو گرفتار کر کے بلوچستان کے دور افتادہ اور پسماندہ ترین علاقے کوہلو کی جیل میں رکھا گیا۔ نواب اکبر بگٹی نے ایک دفعہ اس سارے قصے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ بھٹو نے مجھے ظہورالہی کو قتل کروانے کے لئے کہا، جس کے جواب میں، میں نے اسے کہا کہ ہم کرائے کے قاتل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں گھرانوں میں عزت و احترام اور محبت کا رشتہ مسلسل قائم رہا۔ بھٹو چلا گیا، ضیا الحق آ گیا، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ چوہدری ظہور الہی نے وہ قلم ایک سووینئر کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا جس سے حکم نامہ تحریر ہوا تھا اور پھر 25 ستمبر 1981 کو ماڈل ٹاؤن میں ان پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ بھٹو کو پھانسی دینے والے جج مولوی مشتاق کے ہمراہ ایک گاڑی میں تھے۔ نشانہ دونوں تھے لیکن چوہدری صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ میں پنچاب سے بلوچستان جا چکا تھا اور اس شام کو نواب بگٹی کی محفل میں جن الفاظ میں چوہدری صاحب کا ذکر ہوا، میں نے کسی پنجابی لیڈر کا ایک بلوچ محفل میں ایسا ذکر نہیں سنا۔ چوبیس سال کے طویل وقفے کے بعد مجھے مشرف نے زبردستی پنجاب بھیجا جہاں پرویز الہی وزیراعلی تھا۔ یہ خاندان اس وقت پرویز مشرف کا دست و بازو تھا اور میں سول سروس کی نوکری میں ہوتے ہوئے مشرف کے خلاف کالم لکھ رہا تھا۔ وضع دار خاندان میں چوہدری شجاعت اور پرویز الہی، دونوں نے کبھی ماتھے پر شکن ڈالی اور نہ ہی عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں وقت گزارتے رہے۔ ان سے ایک تعلق خاطر قائم رہا جس میں کوئی غرض شامل نہ تھی۔ جب بھی کبھی ان کے گھر گیا دونوں کو یوں شیروشکر پایا کہ رشک آتا۔ چند سالوں سے بچوں کی رنجشیں معلوم ہوئیں، وہ گلہ بھی کرتے تھے لیکن لگتا نہیں تھا کہ بات اس قدر بڑھ جائے گی۔ ذاتی رنجشیں اور گلے اپنی جگہ لیکن اس وقت پاکستانی سیاست ایک ایسے دوراہے پر آ کر کھڑی ہو چکی ہے کہ لگتا ہے یہ اس ملک کی پچھتر سالہ تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے بوسیدہ ملبوس کو اتار پھینکنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ابھی تو یہ آغاز ہے لیکن اس آغاز میں بھی کسی طور پر غلط رخ یا غلط کیمپ میں کھڑا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں جو بھی اس عوامی سیلاب کے مقابلے میں کھڑا ہو گا بہہ جائے گا، اس کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ میری خواہش ہے کہ اس گھڑی میں چوہدری ظہور الہی کا گھر ایک بار پھر ویسا ہی نظر آئے جیسا 1970 کی دہائی میں تھا۔ ہر تحریک کا مرکز، ہر احتجاج کا منبع اور ہر تبدیلی کی محور۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز