واشنگٹن(صباح نیوز)مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو خوف و ہراس کے ماحول کا سامنا ہے جو انہیں علاقے کی صورتحال کے بارے میں آزادانہ رپورٹنگ سے روک رہا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوزکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019 کے بعد مقبوضہ علاقے میں سخت کریک ڈاون شروع ہوا جب بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت نے کشمیر کو 70 سال سے حاصل محدود خود مختاری ختم کر دی۔رپورٹ میں م فوٹو جرنلسٹ منیب الاسلام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آپ یہاں(جموںوکشمیر) صحافت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، لگتا ہے اب یہ سب مجرمانہ ہے۔ 31 سالہ اسلام اب کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے 40 میل جنوب میں واقع ایک گاوں میں درزی کی دکان چلاتا ہے۔
این بی سی نے ہیومن رائٹس واچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2019 سے کشمیر میں کم از کم 35 صحافیوں کو اپنے کام کے سلسلے میں پولیس پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملہ یا مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں آزادی صحافت کو فروغ دینے والے فری سپیچ کولیکٹو کی شریک بانی گیتا سیشو نے کہا کہ کشمیر میں حکام صحافیوں کو اپنا کام کرنے سے روکنے کے لیے قانون کا صریح غلط استعمال کر رہے ہیں۔کشمیر میں صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکام انہیں نشانہ بنا رہے ہیں اور 2020 میں جاری ہونے والی 53 صفحات پر مشتمل میڈیا پالیسی یہ فیصلہ حکام پر چھوڑ دیتی ہے کہ آیا خبریں جعلی، غیر اخلاقی یا ملک دشمن ہیں۔
سری نگر میں کشمیر پریس کلب پر اس سال کے آغاز میں مقامی حکام نے چھاپہ مار کر اسے بند کر دیا تھا۔2019 کے بعد سے کشمیر میں بہت سے مقامی خبر رساں اداروں نے اپنے تقریبا نصف عملے کو نکال دیا ہے کیونکہ اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاو ن کے ساتھ ساتھ معاشی وجوہات بھی ہیں۔ایک انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ مقامی صحافیوں کو ریاستی دھمکیوں اور سیلف سنسر شپ کا سامنا ہے