غیر ملکی مراسلہ: کھلی مداخلت، احتجاج ریکارڈ کرائیں گے، قومی سلامتی کمیٹی کا فیصلہ


اسلام آباد(صباح نیوز) وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا ،جس میں پاکستان سفارت کار کے ساتھ غیرملکی حکام کی گفتگو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے دی گئی جو کہ کسی بھی حوالے سے ناقابل قبول ہے،

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مسلح افواج کے سربراہان،  وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، مشیر قومی سلامتی، انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے اعلامیہ جاری کردیا گیا جس کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کو غیرملکی آفیشل کی پاکستانی سفیر سے ہونے والی باضابطہ بات چیت پر بریفنگ دی گئی۔

کمیٹی نے غیرملکی سفارت کار کی جانب سے استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار کیا۔قومی سلامتی کمیٹی نے کہاکہ مراسلہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے جو کسی بھی طرح ناقابل برداشت ہے قومی سلامتی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان متعلقہ ملک کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرائے گا۔اسلام آباد اور متعلقہ ملک کے دارالحکومت میں سفارتی اداب کے مطابق احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا۔

شرکاء نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دینے کے کابینہ کے فیصلے کی بھی توثیق کی،واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے جس میں خفیہ مراسلہ پیش کیا جائے۔

پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں ارکین کو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے تفصیلات فراہم کی گئیں، قومی سلامتی کمیٹی میں رائے آئی کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کیسامنے بھی حقائق رکھے جائیں۔

اسد عمر نے کہا کہ جو اپوزیشن کہتی تھی ہمیں بتا دیں ہم عدم اعتماد سے پیچھے ہٹ جائیں گے، بدقسمتی ہے کہ اتنے بڑے قومی ایشوز پر بھی اپوزیشن سیاست کو ترجیح دیتی ہے، پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی میں اپوزیشن نے شرکت نہ کر کے واضح کیا کہ انہیں اس کا پہلے سے علم تھا۔

اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن بیرونی سازش کا حصہ ہے اور بیرونی آقاوں سے ڈکٹیٹیشن لے رہی ہے

فواد چوہدری نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تین فیصلے کیے گئے،ان کا کہنا تھا کہ دستاویز کو پہلے حکومت کی قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کے لیے لایا گیا، پارلیمان کی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس طلب کیا گیا اور پھر وزیراعظم رات کو قوم سے خطاب کریں گے، پھر  جمعہ کو اس پر مزید پیش رفت ہوگی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پہلے ہم نے کچھ پارلیمانی لیڈرز کو ثبوت دکھانے کے لیے بلایا، پارلیمنٹ کا ان کیمرا اجلاس طلب کیا گیا، اپوزیشن پارلیمانی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں نہ آئی۔فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی اگر آئینی طور پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہاں جس طریقے سے تبدیلی کا ڈول ڈالا گیا، پہلے ہم نے چند پارلیمانی لیڈرز کو بلایا اور ان سے کہا کہ آئیے  ثبوت دیکھ لیجیے پھر ہم نے اپوزیشن کے لیڈرز کو بلایا اور کہا کہ آئیے آپ ثبوت دیکھیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا مسلسل بائیکاٹ اس نظریے کو تقویت دیتا ہے کہ اپوزیشن کے چند سرکردہ رہنما اس سازش میں پوری طرح ملوث ہیں، بیرونی طاقتوں سے ڈکٹیشن لے رہے ہیں، اپوزیشن سازش میں پوری طرح ملوث ہے، عمران خان کو ہٹانے کی سازش بیرونی ایجنڈا ہے

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو ہٹائے جانا اس سارے عمل کا ایک بنیادی مقصد ہے، اگر یہ تحریک پاکستان کے اندر سے کھڑی ہوتی تو پھر اپوزیشن لیڈرز کا کیا مسئلہ تھا کہ وہ اس ان کیمرا میں شریک ہوتے اور وہ ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔ان کا کہنا تھا کہ جب آپ شہادتیں دیکھنے سے عاری ہیں تو پھر ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن اس سازش میں پوری طرح ملوث ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اس سازش میں ساری اپوزیشن کے لوگ شامل نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ ہمارے بہت سارے اراکین اسمبلی کو بھی نہیں پتہ ہو اسی لیے میں اپنے اراکین اسمبلی جو پی ٹی آئی سے ادھر گئے ہیں، ان کو کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے فیصلے کو روک لیں۔انہوں نے کہاکہ نوازشریف کی ملاقات ہندوستان اور اسرائیل حکام سے ملاقاتیں ڈھکی چھپی نہیں، عمران خان کو ہٹانے کی عالمی سازش میں میڈیا کے کچھ سینئر لوگ بھی شامل ہیں، پاکستانی عوام اس سازش کو دیکھ رہی ہے

فواد چوہدری نے کہا کہ یہ ایک ایسی سازش ہے، جس میں پاکستان کے میڈیا کے چند سینئر لوگ بھی شامل ہیں اور اس کی داغ بیل لندن میں ڈالی گئی، ہدایات کہیں سے آئیں لیکن سازش نواز شریف کے اپارٹمنٹ سے یہ سازش شروع ہوئی اور یہاں آکر ختم ہو رہی ہے۔۔فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان آخری گیند تک لڑنے والے کھلاڑی ہیں، وزیراعظم کسی بھی قیمت پر استعفی نہیں دیں گے، آزاد خارجہ پالیسی کی قیمت  آزاد سوچ رکھن یوالوں کو دینی پڑتی ہے، پاکستان کے عوام حق حاکمیت پر سودے بازی کو مسترد کرتی ہے، پاکستان کے لوگوں کے وقار اور پاسپورٹ کی عزت کیلئے پوری طرح کھڑے رہیں گے

انہوں نے کہا کہ مقامی میر جعفر میر صادق کا تعاون ایسٹ انڈیا کو نہ ملتا تو کچھ نہ ہوتا، اپوزیشن کو چاہیے کبھی تو قومی غیرت کا مظاہرہ کرے، قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیہ میں دیکھ لیں گے کہ پوری قیادت کا کیا موقف ہے، اس معاملے کو جان بوجھ کر روکا گیا کیوں کہ او آئی سی کانفرنس ہونا تھی۔فواد چوہدری نے کہا کہ ایم این ایز کو کہتا ہوں کیا آپکی غیرت اجازت دیتی ہے کہ عمران خان کے خلاف ووٹ دیں، تحریک عدم اعتماد سیاسی معاملہ ہے، عمران خان ہی وزیر اعظم رہیں گے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب آزاد ملک ہوتے ہیں، آزاد خارجہ پالیسی ہوتی ہے تو اس کی قیمتیں حکومت اور ان لوگوں کو جو آزاد اسٹینڈ لیتے ہیں ہیں ان کو دینی پڑتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس سے پہلے صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک محدود وقت کے لیے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی ہوئی تھی اور اس کے بعد ایک عمران خان کے دور میں یہ پالیسی آزاد ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے میر جعفر اور میر صادق اس وقت اس سازش میں مصروف ہیں، جس سے ہندوستان کو غلام بنایا گیا تھا، یہاں پر بیٹھے ہوئے کچھ جوکر اس سازش میں شریک ہیں اور انہوں نے عمران خان کو ہٹانے کی عالمی سازش میں کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کی قیادت میں پوری طرح کھڑے رہیں گے، پوری تحریک انصاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے گی،ایک سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ ہماری طرف سے اپوزیشن کو ایک ہی پیش کش ہے کہ آپ یہ ثبوت دیکھیں اور اس کے بعد کسی کے دل میں کوئی سوال ہے تو وہ پوچھیں۔وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ یہ جو مراسلہ حکومت کو موصول ہوا ہے، اس کو چیف جسٹس کو دکھانے کی پیش کش کی گئی ہے اور وفاقی کابینہ کو خلاصہ بتایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ خط پڑھنے کے بعد واضح ہے کہ پاکستان میں حکومت بدلنے کی کوشش بیرونی قوت کی طرف سے کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو طریقہ کار اس بیرونی قوت نے کہا اپنایا جائے گا وہی طریقہ بعد میں اپنانے کی کوشش کی گئی اور ابھی تک اپنایا بھی گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حالانکہ اس مراسلے میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بار بار ذکر تو ضرور ہے لیکن اس وقت جب وہ خط لکھا گیا تھا تو اس وقت تحریک جمع نہیں کروائی گئی تھی۔

حماد اظہر نے کہا کہ بیرونی قوت اس بات پر بھی بڑی مطمئن ہے کہ اگر پاکستان میں حکومت بدلتی ہے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہوگی یعنی ان کا اس خارجہ پالیسی پر ایک کنٹرول واپس آئے گا، اس سے لگتا یوں ہی ہے

انہوں نے کہا کہ اس خط سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو ہی پاکستان میں بڑے عرصے بعد جو خودمختار خارجہ پالیسی آئی ہے، اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اطمینان کے ذریعے اگر حکومت کو نہیں ہٹایا جاتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑی مداخلت بھی ہے اور حکومت تبدیل کرنے کی کوشش بھی کہا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس مراسلے کے بعد پاکستان میں جو واقعات ہوئے ہیں، وہ پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں رقم کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ جو لوگ چند دن پہلے تک عمران خان کے ساتھ سیلفیاں کھنچوا رہے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے قصیدے پڑھ رہے تھے، انہی کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچے اور درجنوں کی تعداد میں راتوں رات ان کے ضمیر جاگے۔

انہوں نے کہا کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ قوم اتنی کمزور ہے کہ وہ اس طرح خاموش ہوگی اور عمران خان کو 18 کروڑ عوام نے ووٹ دیے اور ایسے ہی کوئی دوسرا آکر اس کے اوپر بیٹھ جائے گا تو ان سے گزارش ہے کہ وہ برصغیر کی دو ڈھائی سالہ تاریخ کا مطالعہ کرے کہ قوم کتنی غیرت مند ہے۔