وزیر اعظم کی تقاریر کا کوئی مجموعہ شائع نہیں کیا گیا۔ وزارت اطلاعات


اسلام آباد(صبا ح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں پیر کو اس وقت دلچسب صورت حال پیدا ہو گئی جب مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے یہ سوال اٹھایا کہ گزشتہ پونے چار سال کے دوران وزیر اعظم کی تقاریر کے کتنے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ جو کہ پرانی روایت ہے اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹررونک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز کی ڈائریکٹر جنرل عمرانہ وزیر نے کہا کہ اب تک وزیر اعظم کی تقاریر کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے پوچھا کہ ایسا کرنے کی وجوہات کیا ہیں۔ وزیر اعظم کی تقاریر کے ساتھ ایسا کیا ایشو ہے کہ انہیں کتابی شکل میں مرتب نہیں کیا جا رہا۔ وفاقی سیکرٹری برائے اطلاعات و نشریات نے کہا کہ وزیر اعظم کی اکثر تقاریر لکھی ہوئی نہیں ہوتیں، وہ زبانی بولتے ہیں۔ جس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر اور وزیر اعظم کی زبانی تقاریر بھی ریکارڈ ہوتی ہیں جنہیں محکمہ تحریری شکل دے لیتا ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید کے بار بار کے استفسار پر بھی کوئی واضح جواب نہ ملا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ شاید وزیر اعظم کی تقاریر کے متن اور الفاظ کے حوالے سے کچھ مسئلہ ہو اور انہیں کتابی شکل دینا ممکن نہ ہو۔ پیپلز پارٹی کے سینئر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ عمران خان کی تقاریر کو کتابی شکل دینا بہت ضروری ہے۔ یہ ہمارا ورثہ ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ متعلقہ ڈی جی نے کہا کہ وہ وزیر اعظم آفس کو لکھیں گی کہ وزیر اعظم کی تقاریر کا مواد فراہم کیا جائے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقاریر کو ایڈٹ نہیں کیا جانا چاہیے تا کہ انکے خیالات سے کوئی ناانصافی نہ ہو۔ اس پر چیئرمین کمیٹی فیصلہ جاوید نے کمیٹی کی طرف سے وزارت اطلاعات کو ہدایات جاری کیں کہ اگست 2018 سے اب تک وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر شائع کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ فیصل جاوید نے کہا کہ آپکے پاس 2023 تک خاصا وقت ہے جس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ممکن ہو تو یہ کام ہفتے کے اندر اندر مکمل کر لیا جائے۔