دنیا کے نقشے پر کوئی جنگ اتنی قدیم نہیں اور کوئی نفرت اتنی پرانی نہیں جو آج تک ان دو قوموں کی رگ و پے میں موجود ہے اور جس کا اظہار ان کی قومی پالیسیوں اور خفیہ سرگرمیوں میں بھی ہوتا ہے، جتنی پرانی اور آج تک زندہ نفرت روس اور برطانیہ کے درمیان موجود ہے۔ نفرت کے آغاز کی داستان کئی سو سال پرانی ہے اور اس کا تعلق تجارتی منڈیوں میں پھیلائی گئی ان داستانوں سے ہے، جو سولہویں صدی کے برطانوی تاجروں نے روس کے خلاف مشہور کی تھیں۔ یہ تاجر روس سے برفانی ریچھ اور دیگر جانوروں کی کھالیں لا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ماسکو کے ایک شہزادے ایوان چہارم نے 1547 میں خود کو پورے روس کا حکمران کہلانے کا اعلان کر دیا۔ اس دور میں اس منصب کو زارِ روس کہتے ہیں۔ ایوان نے اس کے ساتھ ہی اپنی سلطنت کو وسعت دینے کا آغاز بھی کیا۔ روس کے مقابلے میں اس وقت صرف ترکی کی طاقتور خلافتِ عثمانیہ موجود تھی۔ ایوان نے خلافتِ عثمانیہ کی دشمنی میں یورپ کے ممالک سے بھی تعلقات استوار کرنا شروع کر دیئے۔ 1569 میں ہونے والی روس اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان مشہورجنگ اسی کے دور میں ہوئی تھی، جس میں ترک سلطان سلیم کی افواج نے قاسم پاشا کی سربراہی میں ایوان کو مجبور کر دیا کہ وہ معاہدہ استنبول پر دستخط کرے، جس کے تحت ترکی اور روس بظاہر دوستی کے رشتے میں منسلک ہو گئے تھے۔ ایوان ایک کٹر آرتھو ڈوکس عیسائی تھا جسے چرچ کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اسے عیسائیت کے وہ تمام نشانات پہنائے گئے تھے جو اس سے پہلے کسی بادشاہ کو ایک ساتھ نہیں پہنائے گئے، جن میں حیات بخش درخت کی صلیب اور وہ ٹوپی بھی شامل تھی جسے “کیپ آف مونوماکھ” کہتے تھے۔ مونوموخ دراصل اس بہادر جنگجو کو کہتے ہیں جو تنہا جنگ کرتا ہے اور مخالفین پر بھاری ہوتا ہے۔ ایوان نے برطانیہ کے تاجروں کو اپنے ہاں کام کرنے کی اجازت دی اور 1551 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح موسکووی کمپنی کے نام پر ایک تجارتی کمپنی قائم کی گئی، جس میں لندن کے بڑے بڑے تاجر حصے دار تھے۔ جس طرح مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں 1614 میں سر تھامس رو تجارتی سفارت لے کر آیا تھا، ویسے ہی اس سے بہت پہلے 1553 میں رچرڈ چانسلر فن لینڈ کے ساحلوں والے بحرِ سفید کو عبور کرتے ہوئے ماسکو کریمیلن پہنچا اور ایوان کے دربار میں حاضر ہوا۔ ایون نے فراخ دلی کے ساتھ اسے بغیر کسی ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی کے تجارت کی اجازت دے دی۔ یہیں سے روس میں برطانوی چالبازی اور دھوکہ دہی کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ کمپنی کے تاجر روس سے برفانی ریچھ اور دیگر جانوروں کی کھالیں جب لندن میں فروخت کرتے تو ساتھ ہی ایوان اور روس کے شہریوں کی من گھڑت خونخوار داستانیں بھی سناتے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا کہ خریدنے والے کو اس بات کا احساس ہو کہ یہ کھالیں بڑی مشکل سے حاصل کی گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح یہ چالاک برطانوی تاجر ہر کھال کو دگنی قیمت پر فروخت کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ تمام قصے صرف لوک داستانوں تک محدود نہ رہے بلکہ برطانوی تاریخ، سفارت کاری اور پالیسی کا حصہ بھی بنتے چلے گئے اور یوں ایوان کا نام ایوان خونخوار یا ایوان ڈراؤنا مشہور کر دیا گیا اور یہ نام آج بھی مستعمل ہے۔ قصے کہانیوں سے ہوتی ہوئی برطانیہ اور روس کی نفرت کی یہ داستان اس وقت اپنے عروج پر جا پہنچی جب برطانیہ دنیا کے نقشے پر ایک ایسی سلطنت کے طور پر ابھرنے لگا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کی قوت و طاقت بھی اپنے عروج پر تھی، روس اپنے جغرافیے کے برفانی حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کشمکش کا محور یوکرین اور کریمیا کے ساحلوں سے جڑا وہ سمندر تھا جسے بحرِ اسود کہتے ہیں اور جو آج بھی 2022 میں ویسی ہی ایک خونریز جنگ کا مرکز و محور بن چکا ہے۔ اکتوبر 1852 سے لے کر فروری 1856 تک پانچ ماہ کریمیا کے جزیرے پر شدید جنگ ہوئی جس میں تقریبا سات لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ یہ جنگ دراصل مشرقِ وسطی پر اقتدار کی جنگ تھی۔ مشرقِ وسطی پر اقتدار ایک ایسا خواب ہے جو صلیبی جنگوں کے دوران یورپ نے دیکھا تھا جس کے نتیجے میں 1096 سے 1271 تک 177 سال پورا خطہ خاک و خون میں نہلایا گیا تھا۔ کریمیا کے جزیرے کی جنگ میں روس کی طاقت کو روکنے کے لئے برطانیہ خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ ستمبر 1853 کی 23 تاریخ کو برطانیہ کے بحری بیڑے کو استنبول کے ساحلوں پر جانے کا حکم ملا اور 4اکتوبر کو ترکی نے روس کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ روس، برطانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کی متحدہ افواج نے کریمیا پر حملہ کر دیا۔ روس کے ساتھ دشمنی برطانوی عوام کے رگ و پے میں ایسی دوڑ رہی تھی کہ اسی معرکے پر مشہور برطانوی شاعر ٹینسن نے اپنی مشہور رزمیہ نظم “The Charge of the Light Brigade” لکھی تھی۔ یہ نظم ان تمام خطوں میں جہاں برطانوی حکمران رہے، سکولوں کے نصاب میں شامل کی گئی۔ آج بھی پاکستان کے نصاب میں یہ نظم موجود ہے۔ اس نظم میں ایک ایسی برطانوی فوجی کمپنی کا ذکر ہے جو صرف چھ سو سپاہیوں پر مشتمل تھی اور جن کے پاس کوئی اور اسلحہ نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف تلواریں تھیں، جبکہ ان کے مقابل روس کی افواج توپوں اور بندوقوں سے لیس تھی۔ شاعر کے مطابق یہ جانثاروں کا خود کش حملہ تھا جو نہتے برطانوی سپاہیوں نے کیا تھا۔ نظم ایک ایسے ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں چاروں طرف توپیں تھیں اور سپاہیوں کو موت کی وادی میں اتارا گیا تھا۔ نظم میں توپوں کے دہانوں کو دوزخ کے دروازوں کے طور بتایا گیا ہے جہاں سے شعلے نکل رہے تھے۔ بندوقوں سے جو دھواں نکل رہا تھا اس کی تاریکی میں یہ سپاہی اپنی تلواروں سے روسیوں کے سینوں میں اتر گئے۔ ان بہادروں میں سے چند ہی فتح یاب ہو کر لوٹے تھے مگر وہ جو اپنے گھوڑوں کے ساتھ ہی مارے گئے اب تک برطانیہ کے ایسے ہیرو ہیں جو اپنے وطن کے لئے موت کی وادی میں اتر گئے۔ نظم کے وہ دو مصرعے آج بھی جنگی تاریخ کی علامت ہیں اور انہی مصرعوں سے فوج میں آرڈر اِز آرڈر کا تصور نکلا ہے، یہ مصرعے تھے There is not to Reason why There is but to do or die یہاں یہ سوال پوچھنے کی بھی گنجائش نہیں کہ ایسا کیوں ہے بلکہ ہمیں صرف حکم کی تعمیل کرنا ہے یا مر جانا ہے اسی جنگ سے ایک اور تاریخی کردار نے بھی جنم لیا، جسے فلورنس کی بلبل یعنی کہا جاتا ہے۔ وہ خاتون جو جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھی۔ اس خاتون کو برطانوی تاریخ میں نرسنگ کے شعبے کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اس دور میں ایک اور قوت بھی دنیا کے نقشے پر موجود تھی جسے آسٹرو ہینگری سلطنت کہتے تھے۔ جب اس نے روس کے مقابلے میں ترکی اور برطانیہ کا ساتھ دینے کی دھمکی دی، تو روس فورا 30 مارچ 1856 کو پیرس معاہدے کے تحت اپنے کچھ جنوبی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ بحرِ اسود کو کھلا سمندر قرار دیا گیا اور ڈینوب دریا میں ہر قوم کو کشتی رانی کی اجازت مل گئی۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92