مرکزی دارالحکومت میں دو قومی نظریہ کی اہمیت قومی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے زبردست تقریب کا اہتمام کیا گیا۔زیادہ تر مقررین نے اس موضوع پر انگریزی زبان میں تقاریر کیں جسے سامعین کی اکثریت پوری طرح سمجھ نہ سکی۔ایک مقرر نے اس موضوع پر ایسے اظہار خیال کیا۔ ’’ خواتین وحضرات۔ میں اردو سکول اور کالج میں پڑھا ہوں اور میری طرح ملک کے نوے فیصد لوگ انہی اردو میڈیم اداروں میں پڑہتے ہیں۔ملکی سرکاری اسامیوں کے امتحانات انگریزی ذریعہء زبان میں ہوتے ہیں اور یہ نوے فیصد طلباء طالبات سول سروس میں جانے سے محروم رہتے ہیں۔انگریزی مارکہ بیوروکریسی چونکہ سرمایہ دار کلاس سے تعلق رکھتی ہے لہذا یہ انگریزی مارکہ بیوروکریسی، سبسڈی،سپورٹنگ پرائس،ٹیکس ایمنسٹی وغیرہ کے نام پر عام آ دمی سے وصول کیا گیا ٹیکس اس اپنے ہی طبقہء امراءں کی جیبوں میں منتقل کردیتی ہے۔اس طرح اب لوٹنے والوں اور لٹنے والوں کی مستقل طور پر ملک میں دو قومیں معرض وجود میں آچکی ہیں اور زبانوں کی تقسیم پر مبنی نظامِ تعلیم اس کی بنیادی وجہ ہے۔پھر اس نے اس شعر پر اپنی تقریر ختم کردی۔ ؎ دو قومی نظریہ کی اب یہ جان اور پہچان ہے۔۔ ایک انگریزی کا ایک اردو کا پاکستان ہے۔۔