اسلام اور حقوقِ نسواں۔۔۔تحریر،روبینہ لیاقت ندیم


ویسے تومحسنِ انسانیت، نبی محترمﷺ کے احسانات پوری نوعِ انسانی ہی پر ہیں ، لیکن صنفِ نازک کو انہوں نے خاص طور پرایک نئی زندگی ، ایک اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا۔ یہ حقیقی مقام کیا ہے؟ آدم ؑ اور بی بی حواؑ کی تخلیق کے وقت ہی مرد اور عورت کی حیثیت کا تعیّن کر دیا گیا تھا کہ دونوں کی اصل اور بنیاد ایک ہی ہے ۔’’اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں‘‘۔ (النساء، 1)یعنی اللہ پاک نے واضح کردیا کہ انسانیت کے شرف میں مرد اور عورت میں کوئی تخصیص نہیں ۔ ــــ’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے ،تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزّت والا وہ ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہےـ‘‘(سورۃ الحجرات، 13)۔جب کہ اس ہدایتِ ربّانی سے تحریف کرتے ہوئے یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروںنے عورت کو ازلی گناہ کا سرچشمہ، شیطان کا آلۂ کار اور معصیت کا دَر قرار دیا۔دیگر مذاہب اور اقوام نے بھی اسے قابلِ فروخت اور کم تر ہی جانا اور بیش تر تمدّنی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت کو حقیر ماناجاتا ، لڑکی کی پیدائش قابلِ تضحیک سمجھی جاتی۔ اُسے پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا۔ لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم سے اُسے اس کی کھوئی ہوئی حیثیت ، مقام واپس دیا۔ باعزّت طور پر زندہ رہنا سکھایا۔اسلام نے تو عورت کا مقام بلند کرنے کے لیے، ماں کے قدموں تلے جنّت ہی رکھ دی کہ لوگ اسے عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں، اس کی دل آزاری نہ کریں۔مرد کو اس کا محافظ بنایا، پردے کی صُورت اسے عزّت عطا کی۔گلی گلی، مارا مارا پِھرنے والی نہیں، گھر کی ملکہ بن کے رہنے کا حکم دیا۔مگر افسوس کہ ہم نے مَردوں کی برابری کے چکّر میں عورتوں کو مرد کا حریف بنا دیا، بینرز پکڑواکر سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔
آج صنفی مساوات کے نام پراسلام میں عورت کے تعیّن کردہ مقام کو نشانۂ تنقید بنایا جاتاہے۔ غیر تو غیر ،ہم کلمہ گو، آخرت پر ایمان رکھنے والے بھی اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ حضرت محمّد ﷺنے 7 ویں صدی عیسوی میں عورت کو وہ تمام معاشرتی و تمدّنی حقوق عطا کر دئیے تھے، جو مغرب کی عورت کو 18ویںصدی عیسوی میں انتہائی جد ّو جہد کے بعد بھی حاصل نہ ہو سکے۔ 14ویںصدی عیسوی میں مغرب میں عورت کو روح کے بغیر وجو د تصوّر کیا جاتا رہا۔ 1400ءسے 1700ء تک لاکھوں عورتوں کو چڑیل قرار دے کر زندہ جلایا جاتا تھا۔ جب کہ اس سے 800سال قبل رسالتِ مآب ﷺ نے اللہ پاک کے احکامات کی روشنی میں عورت کو کن رفعتوں سے ہم کنارفرمایا، یہ فرموداتِ رسول ﷺسے صاف عیاں ہے۔’’ آہستہ اونٹ دوڑائو،یہ نازک آب گینے ہیں‘‘ (بخاری شریف،کتاب المنا قب)۔ ’’لوگو! عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘‘ (بخاری شریف، خطبۂ جحتہ الوداع)۔’’لوگو ! اللہ نے تم پر حرام کی ہے مائوں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا‘‘ (بخاری شریف، کتاب النکاح)۔بیوی کے وقار اور اس کی منزلت کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ حسنِ سلوک اور دل جوئی کو ایک شوہر کی خوبی اور شرافت کا معیار قرار دیا۔ آپ ﷺ نےفرمایا ’’تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا ہے اور مَیں تم میں سے سب سے زیادہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے اچھا ہوں‘‘ (ابنِ ماجہ) ایک اور جگہ فرمایا ’’دنیا ساری کی ساری متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب النکاح)۔
آج اسلام کے نظام وَراثت میں عورت کے لیے مقرّر کر دہ حصّے پر تنقید کرنے والوں کو شاید یہ یاد نہیں کہ 18ویں صدی تک مغربی دُنیا عورت کے حقِ ملکیت اور حقِ وَراثت سے ناآشنا تھی۔اسلام نے نہ صرف باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کو اس کی کفالت کا ذمّے دار ٹھہرایا، بلکہ اسے بھر پور عزّت و تکریم دینے کا بھی حکم دیا۔16 ویں اور 17ویںصدی عیسوی میں یورپ کی عورت ڈگری کے حصول کا حق طلب کر رہی تھی ، لیکن اس سے کئی سو سال پہلےآپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی تعلیمات سے منوّر حضرتِ عائشہ صدّیقہؓ ،جلیل القدر صحابہ کرام ؓکو قرآن و حدیث کی تعلیمات دیا کرتی تھیں ۔ اس کے بعد آنے والے ادوار میں خواتین علماء مدینہ، عراق، کوفہ، بصرہ اور دیگر علاقوں میں قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے ہزاروں افراد کے دل و دماغ منوّر کرتی رہیں۔آج 21ویں صدی میں’’ Girl Child ‘‘کے مفاد کو پہلے’’ Beijing plat form for action (BPA)‘‘پھر ’’Millennium Dev. Goals (MDGs) اور Sustainable Dev. Goals (SDGs) ‘‘میں اہم مقام دیا گیا، مگرآپ ﷺ نے تو کئی سو سال قبل فرمایا ’’جس شخص کی لڑکی ہو ، وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اس سے حقارت آمیز سلوک کرے ،نہ اپنے لڑکے کو اس پر ترجیح دے،تواللہ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘(ابو دائود، کتاب الادب)۔
اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی مسیحی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ سینٹ جیروم (St. Jerome) نے کہا:

“Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object.”

مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) ۔Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman’s Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔

جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ۔