محسن بیگ نے ریحام کی کتاب کا حوالہ د یا تو اس میں توہین آمیز کیا تھا ؟اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد(صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کیس میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈائریکٹر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سے نکالا جارہا ہے ، لیکن پاکستان میں فوجداری قانون کو عوامی نمائندوں کی شہرت کی حفاظت پر لگایا جارہا ہے،محسن بیگ نے ریحام کی کتاب کا حوالہ د یا تو اس میں توہین آمیز کیا تھا ؟، پروگرام میں کتنے مہمان تھے ؟ آپ نے دوسرے لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا ؟، لگتا ہے کہ وزیراعظم کو اس کیس کے حقائق سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا، کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں، کریمنل ہتک عزت نجی حق ہے، عوامی حق نہیں ۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے سینئر تجزیہ کار محسن بیگ کی اپنے خلاف مقدمات خارج کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رپورٹس عدالت کے سامنے پیش کی گئیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی رپورٹ بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ موقع پر جھگڑا ہوا جس پر محسن بیگ نے ایف آئی اے کے دو اہلکاروں کو مارا، تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا اور حوالات لے جاتے ہوئے بھی شدید مزاحمت کی۔

وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ محسن بیگ کے خلاف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں چار مقدمات درج کر لیے گئے ہیں ۔ ایف آئی اے کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ کی حفاظت کے لیے کام کر رہا ہے؟ ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نا قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کو فوری طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نا عدالت ڈائریکٹر سائبر کرائم کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دے ، کیا ایف آئی اے قانون اور آئین سے بالا ہے ؟ کیوں نا ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں ؟، دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سے نکالا جارہا ہے ، لیکن پاکستان میں فوجداری قانون کو عوامی نمائندوں کی شہرت کی حفاظت پر لگایا جارہا ہے، ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نا آئینی عدالت کو ؟ یہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

عدالت نے کہا کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہئے؟ بے شک کوئی ان کے گھر غلط گیا ہو گا مگر قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس متعلق جو بھی دفاع ہے محسن بیگ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں بھی نہیں لے سکتا۔

عدالتی نوٹس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بابر بخت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔عدالت نے ڈائریکٹر سائبر کرائم پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی؟، اس عدالت نے آپ کو واضح کیا تھا کہ اس طرح گرفتاری نہیں ہو گی، بے شک میں ہی کیوں نا ہوں، کسی پرائیویٹ کو پروٹیکشن دینے میں نا لگ جائیں، کتنے عرصے سے یہ عدالت آپ کو موقع دے رہی ہے، ہر کیس میں آپ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر رہے ہیں، آپ کو شکایت کہاں ملی تھی ؟ کب ملی ؟ کیا وقت تھا ؟

ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے بتایا کہ لاہور میں ہمیں شکایت ملی تھی۔ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ وفاقی وزیر مراد سعید نے 15 فروری کو لاہور میں شکایت درج کرائی، جس پر عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا مراد سعید وہاں وزٹ پر گئے ہوئے تھے؟۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے اس میں کیا انکوائری کی تھی ؟ صرف یہ کہ دوسری طرف شکایت کرنے والا وفاقی وزیر تھا اس لیے یہ سب کیا ؟ پروگرام میں کتنے مہمان تھے ؟ آپ نے دوسرے لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا ؟ پوری دنیا میں ہتک عزت ڈی کرمنلائز ہورہا ہے، ریحام خان کی کتاب کا جو حوالہ دیا اس میں ہتک عزت کیا ہے ؟ کیسے آپ اس کو ہتک عزت کہہ سکتے ہیں؟۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دیا گیا یہ ہتک عزت ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دفعہ آپ کو بلا کر سمجھایا ہے کہ ایسا نا کریں، کیا یہ کتاب کا صفحہ پروگرام میں کہاگیا؟۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا صفحہ نہیں پڑھا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں یہ ہتک عزت ہے، آپ نے اس کورٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ یہ زخمی انسپکٹر پیچھے کھڑا ہے، ہم بھی آپ کے بچے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نا آپ میرے بچے ہیں نا میں آپ کا باپ ہوں، آپ میری پروٹیکشن کے لیے نہیں عوام کی خدمت کے لیے ہیں، کتنی شکایات آپ کے پاس اس وقت زیر التوا ہیں۔ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ چودہ ہزار شکایات زیرالتوا ہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے اس عدالت اور سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایس او پیز پر عمل کریں گے، آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ نے جو سیکشن ایف آئی آر میں ڈالی اس میں شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کیا ہے، آپ ابھی بھی دلائل دے رہے ہیں ؟ آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے ، بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی ؟ ہم آپ کیخلاف کارروائی کریں گے ، آپ کا کام عوام کی خدمات ہے کسی کی پرائیویٹ ریپوٹیشن کی حفاظت نہیں، آپ کا قانون کہتا ہے پہلے انکوائری کرنی ہے، کیا آپ نے انکوائری کی؟ آپ نے سب ضابطے چھوڑ دیئے کیونکہ شکایت منسٹر کی تھی؟ یہ عدالت اٹارنی جنرل کو بلا رہی ہے اور آپ کے خلاف کاروائی کرے گی، اٹارنی جنرل آئیں اور آپ کا دفاع کریں۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے کہا کہ سارے اختیارات میں استعمال نہیں کرتا۔ عدالت نے کہا کہ شکایت کنندہ خود کہہ رہا ہے یہ ٹی وی شو میں ہوا ، ٹی وی شو پر پیکا کیسے لاگو ہو گیا ؟ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ یہی کلپ فیس بک اور سوشل میڈیا پر شئیر کیا گیا ۔عدالت نے کہا کہ کیا سوشل میڈیا پر محسن بیگ نے شئیر کیا تھا کہ آپ گرفتار کرنے گئے؟ ٹی وی شو میں کیا بات صرف ایک شخص نے کی اور کتنے لوگ تھے؟ صرف ایک کو کیوں گرفتار کرنے گئے؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ریحام کی کتاب کا حوالہ دیکر گفتگو محسن بیگ نے ہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری گفتگو میں توہین آمیز کیا تھا ؟۔ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دینا توہین آمیز تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی اے کیا پیغام دینا چاہتی ہے کہ آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں، یہ آئینی عدالت ہے اور یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے، یہ ایسا جرم نہیں کہ جس میں گرفتاری بنتی ہے، ایف آئی اے مستقل پبلک آفس ہولڈرز کے لیے یہ اختیار کا بے جا استعمال کر رہی ہے، یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے، اگر آپ ایک کتاب کا حوالہ دیں تو اس میں بیہودگی ہے، لیکن سب سے بڑی بے ہودگی آئین کو توہین کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کا اداروں پر اعتماد ہی ان کی ساکھ ہوتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال ساکھ نہیں ہوتی، جو محسن بیگ نے کیا وہ متعلقہ عدالت دیکھے گی ہم صرف ایف آئی اے کے کنڈکٹ کو دیکھ رہے ہیں، افریقہ کے ممالک نے بھی ہتک عزت کے معاملات کو فوجداری قوانین سے نکالا ہے، صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟ یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کی کلاسک مثال ہے، آپ بتائیں کہ اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟ کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی۔چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ پھر آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں، ایف آئی اے اس وقت سارا کام چھوڑ کر عوامی نمائندوں کی عزتیں بچانے میں لگی ہوئی ہے، ایک ایف آئی اے کے اختیار کا غلط استعمال کا معاملہ ہے دوسرے کیس پر کمنٹ نہیں کریں گے متعلقہ عدالت دیکھے گی، کھوسہ صاحب، آپ کی مقدمہ اخراج کی درخواست قابل سماعت نہیں۔محسن بیگ کے وکیل لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک جتھا آ کر گھر میں گھسا، ہم نے کال کر کے پولیس کو بلایا، ایس ایس پی کو ایک فون آیا تو سب کو تھانے لے آئے، پولیس اسٹیشن میں محسن بیگ کو مارا پیٹا گیا، عدالتی بیلف گیا تو اسے بھی بڑی مشکل سے پولیس سٹیشن میں داخلے کی اجازت ملی، ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں سماعت چلی اور انہوں نے اس متعلق فیصلہ دیا، اس دوران محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ لے لیا گیا، میں صرف بدنیتی کے نکتے پر دلائل دے رہا ہوں۔ایف آئی اے افسر نے جواب دیا کہ ایف آئی اے نے بیہودگی پر کارروائی کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سب سے بڑی بیہودگی آئین و قانون کی توہین ہے، سب سے بڑی بیہودگی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا اور اختیارات کا غلط استعمال ہے جو کیس میں واضح ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو تو بالکل گھبرانا نہیں چاہئے، لگتا ہے درخواست گزار بھی محسن بیگ کیخلاف وہ کارروائی نہیں چاہتا تھا جو ایف آئی اے نے کردی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں فحش گوئی کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی فحاشی آئین کا احترام نہ کرنا ہے، بڑی فحاشی اظہار رائے پر پابندی لگانا، اختیار کا غلط استعمال کرنا ہے، جنسی طور پر ایکسپوز کرنے والی یہ سیکشن لگا کر ایف آئی اے نے شکایت کنندہ (مراد سعید)کو بھی شرمندہ کیا۔سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں یہ کہتا ہوں کہ غیر قانونی چھاپہ نہ مارا جاتا تو اس کے بعد والا واقعہ ہونا ہی نہیں تھا، اگر میرے گھر میں کوئی سادہ کپڑوں میں گھس آتا ہے تو کیا شہری کو اپنے دفاع کا حق نہیں؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی میرے گھر آ کر مجھے تعارف کرائے کہ وہ ایف آئی اے سے ہے، ساتھ چلیں، تو میں اس کے ساتھ جائوں گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر بابر بخت کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا کہ کیوں نا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔عدالت نے ایف آئی اے اختیارات کے غلط استعمال اور محسن بیگ کے فائرنگ کرنے کے کیسز کو الگ الگ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کریں پیکا ایکٹ کی جس شق کے تحت یہ مقدمہ درج ہوا کیوں نا کالعدم قرار دیا جائے۔ایف آئی اے کی جانب سے عدالتی احکامات کی مسلسل خلاف ورزی پر اسلام آبادہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ آگیا۔ عدالت نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے بابر بخت قریشی کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی پیش ہوکر معاونت کریں، اٹارنی جنرل پیش کر بتائیں کہ کیا وہ محسن بیگ کیخلاف ایف آئی اے کیس کا دفاع کریں گے ؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم بیان حلفی دیں کہ کیوں نا ان کے خلاف باقاعدہ توہین عدالت کارروائی کی جائے؟۔اسلام آبادہائیکورٹ نے محسن بیگ کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ افسر کی ڈیوٹی ہے کہ وہ کسی کی بات نہ سنے، وہ اپنے ہر عمل کا خود ذمہ دار ہے، عدالت کو لگتا ہے کہ وزیراعظم کو اس کیس کے حقائق سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا، کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں، کریمنل ہتک عزت نجی حق ہے، عوامی حق نہیں۔

محسن بیگ کے جسمانی ریمانڈ میں مزید دو دن کی توسیع

انسداد دہشتگردی عدالت اسلام آباد نے سینئر صحافی محسن بیگ کے جسمانی ریمانڈ میں 2 دن کی توسیع کردی۔جج محمد علی وڑائچ کے سامنے محسن بیگ کو انسداد دہشتگردی عدالت اسلام آباد میں پیش کیا گیا، ملزم کے وکیل لطیف کھوسہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیئے کہ آئی جی ، ڈی آئی جی ڈپٹی کمشنر گزشتہ 3 روز ملزم کے گھر آتے رہے ہیں۔

پبلک پراسکیوٹر نے انسداد دہشتگردی عدالت کے جج کو ہائیکورٹ کی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا اور استدعا کی کہ محسن بیگ کا پولی گرافک ٹیسٹ کرنے کے لیے مزید ریمانڈ چاہیے۔جج انسداد دہشتگردی نے کہا کہ 6 روز سے ملزم جسمانی ریمانڈ پر ہے، جج نے پولیس سے سوال کیا کہ اب تک کیا کارروائی کی ہے جس پر مزید ریمانڈ دے دوں؟پبلک پراسکیوٹر نے کہا کہ جب تک تصدیق نہیں ہوتی کہ ویڈیو میں ملزم ہی ہے، اس سے قبل جوڈیشل کیسے ہوسکتا ہے۔جج نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کیسے کرنا ہے وہ تو مجھے معلوم ہے، آپ کیسے سوال کرسکتے ہیں؟

پبلک پراسکیوٹر نے کہاکہ ایف آئی اے والے ملزم سے مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں، جج نے کہاکہ اگرتحقیقات کرنی ہیں پھر تو ضمانت دے دینی چاہیے۔ملزم کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ہائیکورٹ میں پیکا کو تسلیم کیا ہے،ایف آئی اے کے ہاتھ کھل چکے ہیں،پولیس نے ایک اور کیس رجسٹر کر دیا، تین دن سے گھر ان کے نرغے میں ہے،پولیس گھر سے تمام چیزیں لوٹ کر لے جاچکی ہے،پولیس نے عدالتی ریمانڈ کا غلط استعمال کیا ہے۔وکلا محسن بیگ نے کہا کہ عدالت وکلا کو محسن بیگ سے ملاقات کی اجازت دے، عدالت نے کہا کہ یہ کوئی دہشتگرد تو نہیں ہیں، آپ تھانے میں بھی مل سکتے ہیں، آپ درخواست دیں، دیکھ لیتے ہیں۔اس موقع پر عدالت میں محسن بیگ نے کہا کہ میرا موبائل اور پستول تک غائب ہے،میرے پاس کوئی ویڈیو ہے ہی نہیں نہ میرا اسلحہ میریپاس ہے، میں اسٹوڈیو میں بیٹھا ہوا تھا اگر کچھ اٹھانا ہے تو ٹی وی کے کیمرے اٹھائیں۔محسن بیگ نے کہا کہ نہ میرا میڈیکل مجھے دیا گیا، میرا فریکچر دکھائی نہ دے یہ کوشش جاری ہے،چار بار میڈیکل ہوچکا، 6 بار گزشتہ شام میرا خون کا نمونہ لیا گیا۔وکیل شہباز کھوسہ نے کہا کہ ہمیں کورٹ کی ہدایت کے باوجود میڈیکل رپورٹ فراہم نہیں کی جا رہی، ایسا کونسا کلبھوشن کا بھائی پکڑا گیا کہ اتنی زیادہ پولیس نفری عدالت میں ہے۔عدالت نے محسن بیگ کے وکلا کو میڈیکل سرٹیفکیٹ نہ دینے پر ایم ایس پولی کلینک کو طلبی کا نوٹس دیدیا، وہ 23 فروری کو ریکارڈ کے ہمراہ عدالت پیش ہوں گے۔واضح رہے کہ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن جمیل بیگ کے گھر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے چھاپے کے خلاف درخواست پر سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی۔ عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز جاری کرکے اٹارنی جنرل کو اگلی سماعت پر طلب کیا ہے