تقریباً نصف صدی بعد، ایک تاریخ کے طالب علم کے طور پر، میں ایک تصویر سے متاثر ہوا جو دو قوموں کے تعلقات کی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تصویر میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بنگلہ دیش کی اعلیٰ فوجی وفد کوسووینر پیش کر رہے ہیں، جو خیر سگالی اور دوستی کا مظہر تھا۔ یہ سادہ سا عمل نہ صرف پاکستان-بنگلہ دیش تعلقات بلکہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے وسیع تر بیانیے کے لیے ایک گہری علامت رکھتا تھا۔
جب میں نے اس تصویر پر غور کیا، تو میرے ذہن میں ایک اور منظر ابھرا جو تاریخ میں گہرائی سے نقش ہے؛ جنرل امیرعبداللہ خان نیازی کا 16 دسمبر 1971 کو ریس کورس گراؤنڈ (جو اب سہراوردی ادیان کہلاتا ہے) پر سرنڈر کے معاہدے پر دستخط کرنا، جو بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان تھا۔
یہ سرنڈر محض ایک عسکری واقعہ نہیں تھا بلکہ برسوں کی سیاسی بےچینی، غلط فہمیوں اور بیرونی سازشوں کا نتیجہ تھا۔ یہ پاکستان کے اتحاد کے افسوسناک ٹوٹنے اور ایک نئی قوم کی پیدائش کی علامت تھا، جو بین الاقوامی سازشوں کی دھندلی چھاؤں میں وجود میں آئی۔ کئی برسوں تک، یہ تصویر بنگلہ دیش کی سیاسی اشرافیہ کی دیواروں پر سجی رہی۔ یہ ان کی آزادی کی جدوجہد کا ایک مستقل یادگار تھی اور بعض اوقات پاکستان کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ایک نمایاں مثال بنگلہ دیشی وزیرِاعظم کے دفتر میں لگی وہ تصویر تھی، جہاں شیخ حسینہ واجد اکثر بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے ساتھ کھڑی ہو کر میڈیا کے سامنے اس تصویر کے پس منظر میں تصویر کشی کرواتیں، جس سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان اس ہنگامہ خیز دور میں بننے والے تعلقات کو اجاگر کیا جاتا تھا۔
تاہم، تاریخ اپنے راز افشا کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ وقت کے ساتھ، 1971 کی جنگ میں بھارت کے کردار کے بھارتی بیانیے کو ان کی قیادت نے کھلے عام تسلیم کیا۔ وزیرِاعظم مودی نے متعدد بار پاکستان کے ٹوٹنے میں بھارت کی شمولیت پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ اعتراف بھارت کی خفیہ کارروائیوں، عسکری مداخلتوں اور مکتی باہنی کی حمایت کے دستاویزی شواہد کے مطابق ہے۔ یہ تسلیم، جو بھارت کے لیے باعثِ فخر ہو سکتی ہے، نے اس کے ان مقاصد کو بھی بے نقاب کر دیا جو خطے کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے کیے گئے تھے۔
عشروں تک، بنگلہ دیش بھارت کے اسٹریٹجک دائرے میں گھرا ہوا دکھائی دیا، جہاں اقتصادی اور سیاسی تعلقات زیادہ تر بھارت کے حق میں جھکے ہوئے تھے۔ بھارتی مصنوعات بنگلہ دیشی منڈیوں پر چھائی رہیں، سرحدی دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے تنازعات حل نہ ہو سکے، اور بھارتی اثرورسوخ اکثر بنگلہ دیش کی خودمختاری پر سوالیہ نشان بناتا رہا۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب تعلقات میں تناؤ کے آثار ظاہر ہونے لگے، بنگلہ دیش نے علاقائی سطح پر اپنی آزادی کا اظہار شروع کیا۔
اس بدلتے ہوئے تناظر میں، پاکستان-بنگلہ دیش تعلقات میں حالیہ برف پگھلنا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ جنرل سید عاصم منیر اور بنگلہ دیشی فوجی وفد کے درمیان علامتی ملاقات ایک شعوری کوشش ہے کہ 1971 کی تلخ یادوں کو پیچھے چھوڑا جائے۔ دونوں ممالک یہ سمجھنے لگے ہیں کہ طویل دشمنی کے بجائے بھائی چارہ زیادہ سودمند ہے۔ یہ قربت محض مشترکہ تاریخ اور ثقافت پر مبنی نہیں بلکہ عملی مصلحتوں پر بھی مبنی ہے۔ ایک ایسے خطے میں جہاں بھارت کی بالادستی کے عزائم نمایاں ہیں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعاون ایک توازن پیدا کر سکتا ہے، جو خطے میں زیادہ استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے معاشی رجحانات بھی باہمی تعاون کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش ٹیکسٹائل کی برآمدات میں عالمی رہنما بن کر ابھرا ہے، جس نے مشکلات کے باوجود قابل ذکر ترقی حاصل کی ہے۔ پاکستان، اپنی وسیع قدرتی وسائل اور اسٹریٹجک محل وقوع کے ساتھ، بنگلہ دیش کی اقتصادی خواہشات کو پورا کر سکتا ہے۔ تجارتی معاہدے، مشترکہ منصوبے، اور ثقافتی تبادلے غیر استعمال شدہ مواقع کو کھول سکتے ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔
مزید برآں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مشترکہ مذہبی اور ثقافتی ورثہ ایک طاقتور پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ تکلیف دہ علیحدگی کے باوجود، ایمان، زبان، اور روایات کے رشتے برقرار ہیں۔ تعلیمی تبادلے، عوامی روابط، اور فنون و کھیلوں میں تعاون جیسے اقدامات ان تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں۔
وسیع تر جغرافیائی سیاسی منظرنامہ بھی اتحاد کا متقاضی ہے۔ بھارت کی توسیعی پالیسیوں اور پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہی بھارت جو کبھی بنگلہ دیش کا نجات دہندہ بنا تھا، اب ایک علاقائی غنڈہ کے طور پر بے نقاب ہو چکا ہے، جو اپنے مفادات کے لیے اپنے پڑوسیوں کو استعمال کرتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کر کے اس بیانیے کو مشترکہ طور پر چیلنج کر سکتے ہیں اور ایک زیادہ جامع اور متوازن جنوبی ایشیا کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں۔
یہ نئی بھائی چارگی اقوام کی مزاحمت اور تاریخی شکایات پر قابو پانے کی صلاحیت کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ یہ اس ابدی حقیقت کا ثبوت ہے کہ کوئی بیرونی طاقت ان لوگوں کو مستقل طور پر جدا نہیں کر سکتی جو مشترکہ مقدر سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1971 سے موجودہ لمحے تک کا سفر چیلنجز سے بھرا ہوا تھا، لیکن یہ مفاہمت اور دور اندیش قیادت کی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
جب میں نے جنرل نیازی کی سرنڈر کی تصویر کو دوبارہ دیکھا اور اسے جنرل عاصم منیر کی خیر سگالی کے حالیہ عمل کے ساتھ جوڑا، تو ایک پُرمعنی اردو شعر ذہن میں آیا
پہنچی وہاں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا۔
وقت کا پہیہ گھوما، سازشوں کو بے نقاب کیا اور نئی حقیقتوں کو عیاں کیا۔ ماضی، اگرچہ تکلیف دہ، مستقبل کے لیے ایک رہنما کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ اگرچہ تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا، لیکن یہ سیکھنے اور ترقی کے لیے ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔
پاکستان-بنگلہ دیش کے تعلقات کی یہ بدلتی ہوئی کہانی ان تمام اقوام کے لیے سبق رکھتی ہے جو تاریخی دشمنیوں کے بوجھ سے نبرد آزما ہیں۔ یہ بات چیت، باہمی احترام، اور مشترکہ مفادات کو تسلیم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ جب خطہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، تو ان دونوں اقوام کا دیا ہوا نمونہ جنوبی ایشیا میں تعاون اور ہم آہنگی کے ایک نئے دور کو متاثر کر سکتا ہے، ان تقسیم کرنے والی قوتوں کے خلاف جو انہیں ماضی میں جدا کر چکی تھیں۔