قوموں کی تاریخ علم ، معیشت اور تمدن کے ارتقا سے مرتب ہوتی ہے۔ اس سفر میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص واقعے سے جڑا ہوا تقویمی عدد علامتی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پچھلی صدی میں 22جون 1941 ء کو جرمنی نے روس پر حملہ کیا تو اس روز دوسری عالمی جنگ کا نقشہ ہی تبدیل نہیں ہوا ، نتیجہ بھی طے پا گیا۔ قریب چھ ماہ بعد 7دسمبر 1941ء کو جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تو امریکا بھی عالمی جنگ میں براہ راست شریک ہو گیا۔ 6اگست کو ہیروشیما اور 9 اگست 1945ء کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تو عسکری تصادم کی نوعیت میں جوہری تبدیلی رونما ہو گئی۔ 22نومبر 1963ء کو جان کینیڈی قتل ہوئے۔ 4 اپریل 1968 ء کو مارٹن لوتھر کنگ کو گولی ماری گئی۔ 20جولائی 1969 ء کو انسان نے چاند پر قدم رکھا۔ 11ستمبر 2001ء کو امریکا میں دہشت گرد حملے ہوئے تو اس تاریخ کو اس مناسبت سے نائن الیون قرار دیا گیاکہ امریکا میں ہنگامی مدد کیلئے 911فون نمبر استعمال ہوتا ہے۔ زندہ قومیں ان واقعات کو یاد رکھتی ہیں لیکن ان کی اسیر نہیں ہوتیں۔
پاکستان میں تعلیمی نصاب بنانے والوں نے ایک لفظ کی تحریف کے ساتھ منٹو کے کم از کم ایک افسانے ’نیا قانون ‘ کو ادب تسلیم کر لیا ہے۔ یہ افسانہ ایک حقیقی ، قانونی اور سیاسی تناظر میں لکھا گیا تھا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء 2اگست 1935ء کو منظور ہوا اور اسے یکم اپریل 1937 ء سے نافذ العمل ہونا تھا۔ ہم آپ تو منٹو کو محض ایک فحش نگار کے طور پہ جانتے ہیں بلکہ جنوری 1955 ء میں منٹو کی وفات پر ہندوستان کے ایک بڑے مولانا نے یہاں تک لکھا تھا کہ ’اہل پاکستان کو کیا ہو گیا ہے۔ ایک فحش نگار مرا ہے تو تعزیتی جلسے ہو رہے ہیں۔ قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں‘۔ ملائے مکتب کو کیسے معلوم ہو سکتا تھا کہ ’1919 ء کی ایک رات ، ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ، ’کھول دو‘ سے لے کر انکل سام اور پنڈت نہروکے نام خطوط تک منٹو جیسا پختہ سیاسی شعور رکھنے والا تخلیق کار اردو ادب نے پیدا ہی نہیں کیا۔ 1977 ء میںپچاسی برس کی عمر پا کر وفات پانے والے مولانا موصوف کی کوئی تصنیف ہمارے علمی حافظے کا حصہ نہیں لیکن جواں مرگ سعادت حسن منٹو کا ذکر کیے بغیر اردو ادب کا اعتبار قائم نہیں ہوتا۔ منٹو کے مذکورہ افسانے ’نیا قانون‘ کا کلیدی جملہ منگو کوچوان کا ایک مکالمہ ہے۔ ’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں… پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں… ‘سادہ لفظوں میں منٹو یہ کہہ رہا ہے کہ تاریخ کی حرکیات کسی خاص دن سے ماورا ہوتی ہیں۔
ہماری تاریخ کا ایک واقعہ اور سن لیجئے۔ 12مارچ 1949 ء کو قرارداد مقاصد منظور ہوئی۔ ایک برس بعد اس قراردا د کی پہلی سالگرہ منائے جانے کا اعلان ہوا۔ 4مارچ 1950 ء کو پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح پنجاب کے گورنر عبدالرب نشتر نے کیا ۔ اس کانفرنس میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، جسٹس ایس اے رحمن ، ڈاکٹر عمر حیات ملک ،ابراہیم علی چشتی اور نعیم صدیقی نے اپنے مقالے پیش کیے۔ ان مقالوں پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک آمر کے ہاتھوں پاکستان کے دستور کا نافذ العمل حصہ بننے والی اس دستاویز کے بارے میں اس زمانے کے اہل دانش کی تفہیم میں کس قدر ’اتفاق‘ پایا جاتا تھا۔ نشتر صاحب نے فرمایا کہ ’افراد کی آزادی سے ملک کی آزادی زیادہ قیمتی چیز ہے‘۔ ڈاکٹر عمر حیات ملک کا خیال تھا کہ ’عوام اپنے حکمران منتخب کر سکتے ہیں لیکن عوام اپنے حکمرانوں کو اختیارات تفویض نہیں کر سکتے۔ اختیارات کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے‘۔ علامہ محمد اسد نے کہا کہ ’شریعت نے کوئی قطعی نظام حکومت وضع نہیں کیا۔شریعت میں صرف عمومی اسلوب وضع کیے گئے ہیں ‘۔ مولانا ابراہیم علی چشتی نے علامہ اسد کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اسلام میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘۔ چشتی صاحب نے تو قرارداد مقاصد ہی کو اسلامی اصولوں سے متصادم قرار دیا۔ نعیم صدیقی کا کہنا تھا کہ ’اسلامی مملکت کا سربراہ محض آئینی بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ اسے قطعی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ دستور ساز اسمبلی کی حیثیت محض ایک مجلس شوریٰ کی ہوتی ہے‘۔اسی دوران 12 مارچ کو سرکاری ہدایت پر قرارداد مقاصد کے چارٹ سرکاری دفاتر میں لٹکا دیے گئے ۔اس پر امروز میںچراغ حسن حسرت نے تبصرہ کیا کہ ’’ہمارے نزدیک قرارداد مقاصد کے تعویذبچوں کے گلے میں لٹکائے جا سکتے ہیں۔ خاص خاص موقعوں پر یہ تعویذ گھول کر پلا دینا بھی خاصا مفید ثابت ہو سکتا ہے بلکہ رفع آسیب کے لیے قرارداد مقاصد کی دھونی بھی دی جا سکتی ہے‘‘۔
ہماری تاریخ میں کئی ایسے دن آئے جنہیں مختلف قوتوں نے تاریخ کی ترجیحی بیانیہ سازی کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ 16 دسمبر 1971ء کو تو ہم نے بہت پہلے اجتماعی تاریخ سے کھرچ ڈالا تھا۔ اتفاق سے اے پی ایس پشاور پر دہشت گرد حملہ بھی سولہ دسمبر کو ہی ہوا۔ اب اس کی گونج بھی مدھم ہو رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں کو چھوڑ کر باقی ملک کو کیا خبر کہ مغربی سرحد پر کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی کو اپنی جمہوریت پسندی کیلئے 5جولائی (1977 ) اور مسلم لیگ نواز کو 12اکتوبر (1999ء) پسند ہے۔ ماڈل ٹائون کے ایک شیخ الاسلام 17جون (2014 ) کو ماڈل ٹائون فائرنگ کے شہدا کیلئے انصاف مانگا کرتے تھے لیکن اپنے سیاسی کزن کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران مراقبے میں چلے گئے۔ ان دنوں سیاسی مکالمہ 9مئی (2023ء) اور 26 نومبر (2024ء) کے گرد گھوم رہا ہے۔ ماہ و سال کی بساط پر ابھرتے ڈوبتے تقویمی ہندسوں کے سہارے قومی تعمیر کے خواب بیچنے والے نہیں جانتے کہ جن قوموں کو آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ تاریخ کے حادثوں سے سبق حاصل کر کے ادارے ،اقدار اور روایات مرتب کرتی ہیں۔ سیاسی ارتقا کسی خاص دن کا اسیر نہیں کہ اس کیلئے رویت ہلال کمیٹی بٹھائی جائے۔
بشکریہ : روزنامہ جنگ