نئی دہلی (صباح نیوز)جماعت اسلامی ہندکے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ۔ سید سعادت اللہ حسینی نے نئی دہلی میں اسٹوڈینٹس اسلامک آر گنائزیشن آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ النور لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کی اس موقع پر وہ حماس کے شہید سربراہ یحی سنوار کی طرح کرسی پر بیٹھے تھے امیر جماعت نے چھڑی پکڑی ہوئی تھی اور ایک فلسطینی رومال پہنا ہوا تھا۔
لیٹریچر فیسٹول کی سب سے دلکش خصوصیت اس کی نمائش تھی جس میں فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اور غزہ کے لوگوں کی الاقصی کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں قربانیوں کو واضح طور پر دکھایا گیا تھا۔ نمائش کی ایک پرجوش خاصیت عظیم فلسطینی مجاہد اور حماس کے رہنما یحیی سنوار کے آخری لمحات کی نمائش تھی۔ اس نمائش کے زریعے آزادی کے لیے فلسطینیوں کی جدو جہد، غزہ کی قربانیوں، شاندار اسلامی خطاطی، اور ہندوستان میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جاری جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی۔
انور لیٹریچر فیسٹیول کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے بغیر ملبوسات والی پینٹنگز کی مثال دیتے ہوئے واضح کیا کہ مغربی تہذیب میں اسے فن تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی تہذیب میں اسے کبھی بھی فن اور آرٹ شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے ان روحانی اور اخلاقی اقدار کو ٹھیس پہنچتی ہے جن کو فن کو برقرار رکھنا چاہیے۔انہوں نے ایک اور تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ غیر پرکشش اور نامعقول طریقے سے تعمیر کی گئی مسجد کو آرٹ کا شاہکار نہیں کہا جا سکتا انہوں نیاس بات پر زور دیا کہ اسلامی فن میں حقیقی فنکارانہ اظہار کے لیے تینوں اقدار روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی ضروری ہیں۔ تینوں اقدار کی یکساں اہمیت پر زور دیتے ہوئے
انہوں نے مزید کہا کہ خوبصورتی سے تیار کی گئی عمارت اگر غریبوں کے گھروں کو اکھاڑ کر تعمیر کی جائے یا کسی غیر منصفانہ جگہ پر رکھی جائے تو اسے اسلام میں فن کا شاہکار نہیں قرار دیا جا سکتا، کیونکہ اس میں اخلاقی اور روحانی دونوں اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے امیر جماعت نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام نہ صرف فن بلکہ انسانی زندگی اور عمل کے تمام پہلوں میں جمالیات کو اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، اس نے کائنات، زمین اور تمام مخلوقات کو بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔
انہوں نے ے عباسی دور میں بغداد میں آٹھویں صدی کے ایوانِ حکمت (بیت الحکمہ) کی ایک اور مثال دی، جس نے دنیا، معاشرے اور یہاں تک کہ آنے والی نسلوں کو بھی گہرا اثر ڈالا۔ انہوں نے علامہ اقبال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال کی شاعری نے برصغیر پاک و ہند کے افکار و فکر پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں اور موجودہ اسلامی تہذیب دونوں پر عظیم اسلامی مفکر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے گہرے اثرات کے پیچھے چھپے راز کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے اس کے پس پردہ ان کی تحریر کی جمالیاتی فن، منطقی وضاحت کو قرار دیا۔