قلم قبیلہ ہو، کیمرہ کار ہوں یا برش باز، سب کو کبھی کبھار پھولوں کے ہار پڑتے ہیں جبکہ اکثر گالی بازوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ پھول اور گالی کو نظر انداز کرتے بھی رہیں تب بھی کبھی نہ کبھی گھائو دل کو گھائل کرتے رہتے ہیں۔ ان تخلیقی پیشوں کی زندگی بہت مشکل ہے کبھی آپ کو ایسا مداح مل جاتا ہے جو آپ پر صدقے واری جاتا ہے اور کبھی ایسا متعصب ناقد جس کی آنکھوں سے نفرت اور زبان سے دشنام نمایاں ہوتی ہے۔ پہلے تضادستان میں ریاست اور انتہا پسند تخلیق کاروں کو دبائو میں رکھنے کیلئے الزام لگاتے تھے اب مقبول عام بیانیے والوں نے بھی یہی روش اختیار کرلی ہے۔ زوال آمادہ معاشروں میں سچے گلیلیو، آفاقی سقراط، سوجھو ان اِبن رُشد اور دور اندیش سرسید احمد خان مقبول نہیں ہوتے، وہ اپنے اپنے زمانے میں مقبول عام بیانئے کیخلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آج گلیلیو، سقراط، ابن رشد اور سرسید تو زندہ ہیں، اپنے زمانے کے یہ بدنام تو بہ صد تحریم یاد کئے جاتے ہیں اور اُس زمانے کے مقبول ِعام آج مغضوب اور متروک ہو چکے ہیں۔ آج کل تخلیق کار کا مخمصہ نہ صرف ریاستی بیانیے کا توڑ ہے بلکہ مقبول عام بیانیے کی غلطیاں سامنے لانا بھی ہے۔ وہ جو مقبول عام بیانیے کی رو میں بہہ رہے ہیں انکو یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں سب سے بہترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے وہاں سب سے مشکل کام مقبول عام بیانیے کیخلاف کھڑا ہونا بھی ہے، گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونا بھی بہادری کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ بہتے دریا میں بے وزن تیراکی سے بہتر ہے کہ نوکدار پتھرکی طرح دریا کا سینہ چیرا جائے، یہ بھی جدوجہد کا سنہری زینہ ہے، چاہے بے نتیجہ ہی کیوں نہ ہو۔ آخری عمر میں مرحوم و مغفور اشفاق احمد نے مجھے دو تین بار کہا، میرا دل اب چھوٹے موٹے موضوعات پر لکھنے کو نہیں کرتا میں ایک بڑے موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں میں نے کریدا تو اندازہ ہوا کہ وہ دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کے جابرانہ رویوں کو موضوع بنانا چاہتے تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی اور ہم اس موضوع پر انکا کوئی شاہکار دیکھنے سے محروم رہے۔ تخلیق کار اپنے ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے اس موضوع کا انتخاب ترجیحاً سب سے پہلے کرتے ہیں جو انکے خیال میں انہیں سب سے زیادہ چبھتا ہے۔ آج کا چبھتا موضوع پاکستان کے مستقبل کے دو متضاد بیانیے ہیں۔ ایک جنرل عاصم منیر کا بیانیہ ’’امید‘‘ ہے اور دوسری طرف انکا مخالف بیانیہ ہے کہ ’’یہ ملک تباہ ہونے جا رہا ہے‘‘۔ مقبول عام بیانیہ بدقسمتی سے یہی ہے کہ ’’پاکستان تباہ ہونے جا رہا ہے‘‘ اور اگر کوئی دوسری رائے کا اظہار کرے تو پھر گالیاں، ٹرولنگ اور عدم مقبولیت کا رسک ہے، گو منصور آج حق کا استعارہ ہے مگر جب وہ پھانسی چڑھایا جا رہا تھا تو کیا سب نے اس کو پتھر نہیں مارے تھے، اس کیساتھ کھڑا تو کوئی بھی نہیں ہوا تھا۔ آج بوڑھا رائے احمد خان کھرل پنجاب میں مزاحمت کا استعارہ ہے مگر جب وہ انگریز حاکم برکلی سے برسرپیکار تھا تو اس وقت نہ ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے انہیں پھول بھیجے اور نہ اس وقت کے نواب خاندان کے کھرلوں نے۔ بلکہ وہ دونوں تو انگریزی سازش کا حصہ تھے ۔ احمد خان اکیلا رہ کر عین دس محرم کو جام شہادت نوش کر گیا اور مقبول عام بیانیے کیساتھ کھڑے قریشی پیر اور کھرل نواب جاگیریں اور خلعتیں پا گئے۔ اس وقت کا بدنام رائے احمد خان کھرل آج کا ہیرو ہے اور اس وقت کے معزز قریشی، نواب ،کھرل غدار اور زیرو ہیں۔ اور تو اور معاشرے کی اکثریت نے سعادت حسن منٹو کی کیا تکریم کی؟ فحش نگاری پر مقدمہ چلایا، اتنا بڑا آدمی اور ہمیشہ گھر کے خرچے سے تنگ رہتا تھا، آج منٹو صدی کا بڑا نثر نگار ہے اور اپنے زمانے میں مشکوک تھا۔ فیض اب مقبول عام ہیں مگر اپنے زمانے کے غدار ٹھہرے تھے۔ فراز کیساتھ ریاست نے کیا کیا کچھ نہیں کیا اور ان کے چاہنے والے بھی ہمت نہیں کر پاتے تھے کہ ان کیساتھ کھڑے ہو پائیں۔ تخلیق کار کو گالی اور پھول سے بے نیاز ہو کر ہی بات کرنی پڑتی ہے تبھی وہ تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کی مقبولیت اور عدم مقبولیت سے ماورا ہوتا ہے توہی بے باک سچ بول سکتا ہے اگر وہ بھیڑ چال میں شریک ہو جائے تو خرد مندی کا سبق کیسے پڑھا سکے گا۔
40سالہ صحافتی سفر میں ریاستی جبر کی کہانیاں پھر کبھی سہی۔ پہنائے گئے پھولوں کے ہاروں کی داستان بھی آج کا موضوع نہیں، برسائی گئی پھولوں کی پتیوں کا مزہ لینا بھی آج مناسب نہیں۔ اپنی تعریف صرف شاعروں کی تعلی میں ہی ہضم ہو سکتی ہے، عاجز قلم مزدوروں کو یہ زیبا نہیں۔ آج کا موضوع وہ رویے ہیں جو عدم برداشت کے معاشرے میں بار بار سامنے آتے ہیں۔ مرحوم و مغفور نوابزادہ نصر اللہ خان پر ایک مزاحیہ اور طنزیہ کالم لکھا تو انہوں نے تند و تیز جملوں کو قہقہوں میں اڑا کر برداشت کا خوبصورت مظاہرہ کیا۔ قاضی حسین احمد میرے سرپرستوں میں سے تھے ذاتی شفقت بھی بہت کرتے تھے لیکن ایک انگریزی کالم میں جماعت اسلامی کی تنگ نظری پر قلم اٹھایا تو غصے میں آگئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھری محفل میں میری تعریف کیا کرتی تھیں لیکن ایک بار ایک ہی چبھتے ہوئے سوال کو بار بار دہرایا تو رونے لگ گئیں اور مجھے معافی مانگ کر انہیں راضی کرنا پڑا۔ نواز شریف بھی فوراً برا مان جاتے ہیں تنقیدی جملہ سنیں تو غصے سے انکا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ شہباز شریف تنقید برداشت کر لیتے ہیں لیکن بعد میں گلہ گزاری اور شکایت کرتے ہیں۔ عمران خان تو طنزیہ، مزاحیہ، تنقیدی تحریر یا مکالمہ پڑھ کر یا سن کرگالیوں پر اتر آتے ہیں۔ صدر زرداری بھی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری میرے لہجے اور سوالوں کی نقل کرکے مذاق بھی اڑا لیتے ہیں۔ عمران خان بھی اپنے ساتھ کئے گئے انٹرویو کے واقعات اور سوالات کا ہر میٹنگ میں ذکر کرتے ہیں۔ فیصل واوڈا پر ایک دفعہ تنقیدی اور طنزیہ کالم لکھا ملاقات ہوئی تو انہوں نے گلہ کیا مگر انداز بے حد تہذیب و احترام کا مظہر تھا۔ رحمان ملک مرحوم سے ساری زندگی اچھے مراسم رہے ایک بار انکے متضاد اور خوشامدی رویوں پر کالم لکھا تو ملاقات پر مجھ سے الجھ پڑے اور الزام لگایا کہ یہ کالم ایجنسی کے کہنے پر لکھا گیا ہے ہماری تکرار سنکر وہاں موجود زرداری صاحب متوجہ ہوئے اور رحمان ملک کو خاموش کروادیا۔ اس عاجز صحافی نے کبھی کسی کا اسکینڈل نہیں بنایا، کسی کو زندگی بھر برا نہیں کہا، البتہ طنز و مزاح اور شائستہ تنقید ضرور کی ہے کوشش کی ہے کہ کبھی کسی کو گھائو نہ لگائوں اور جوابی توقع بھی یہی ہے کہ شائستہ رویے میں ہر بات کا جواب دیا جاسکتا ہے مگر جب خنجر اور نوکِ زبان سے گھائو لگائیں تو عاجزوں کو بھی گھائو لگتا ہے۔ تہذیب یافتہ اور غیرتہذیب یافتہ معاشرے میں بنیادی فرق برداشت اور تحمل کا ہے، تہذیب یافتہ معاشروں میں تعریف، تنقید، طنز و مزاح سب چلتےہیں، اسکینڈل بھی زیربحث آتے ہیں مگر کوئی گھائو نہیں لگاتا۔ غیر مہذب معاشرے میں ہر کوئی دوسرے کو گھائو لگاتا ہے، گھائو کا زخم گہرا ہوتا ہے جو جلدی مندمل نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف اور ریاست کے ایک دوسرے کیخلاف گھائو پورے معاشرے کو گھائل کر رہے ہیں، کیا عامی اور کیا خاص، ہم نے چھپے خنجروں سے ایک دوسرے کو شکار کرنے کا وطیرہ اپنا لیا ہے۔ جب تک یہ نہیں رکے گا کوئی مصالحت نہیں ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ