کیا ملک کا وقار اب ہمارا مسئلہ نہیں رہا ؟… ذوالفقار احمد چیمہ


خبر ایسی ہے کہ اگر کوئی زندہ قوم سُنتی تو اس میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی، اُس کے اسباب کا کھوج لگانے کے لیے انکوائریاں شروع ہوجاتیں،کابینہ کی میٹنگ میں اس پر غور و خوض ہوتا، منتخب نمایندے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں اس پر بحث کررہے ہوتے اور میڈیا پر کئی روز تک اس کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا۔ یہ اس لیے ہوتا کہ خبر میں بتائے گئے حقائق کا تعلّق ملک کے وقار اور اعتبار سے ہے، اس سے ملک کی عزّت اور ناموس پر داغ لگا ہے اور پوری قوم کا امیج مجروح ہوا ہے، اس لیے اس سے زیادہ اہم اشو کیا ہوسکتا ہے۔

مگر یہ جان کر اور یہ پڑھ کر بھی کہ ریاستِ پاکستان کے ایک دو یا دس بیس نہیں 23 ہزار باشندوں نے بیرون ممالک میں مختلف جرائم کا ارتکاب کرکے ملک کو بے توقیر کیا اور پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، تقریباً ساڑھے دس ہزار پاکستانی سعودی عرب میں قید ہیں۔ نیچے سے اوپر تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، نہ کابینہ میں اس انتہائی اہم اشو کو زیرِ بحث لایا گیا ہے، نہ ہی میڈیا پر اس پر کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہی عوام کے کسی نمایندے نے اسے اس قابل سمجھا ہے کہ اسے ایوان میں پیش کرتا اور حکومت اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کراتا۔ کیا قومی وقار اب ہمارا مسئلہ ہی نہیں رہا۔ کیا ملک کی عزّت اور ناموس کے معاملے میں ہم بے حس ہوچکے ہیں؟

سعودی عرب کے ساتھ ہمارا گہرا روحانی تعلّق ہے وہاں ہمارے مقدّس ترین مقامات ہیں، کبھی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی کو عربی لباس میں ملبوس دیکھ لیا جاتا تو پاکستانی باشندے اس کے ہاتھ چومنے لگتے کہ اس کا تعلق اس مقدّس جگہ سے ہے جہاں اﷲ کا گھر اور اسلام کا مرکز، خانہ کعبہ اور ہمارے پیارے نبی کریمؐ کا روضۂ اقدس ہے۔ اولیا اﷲ ہی نہیں بڑے بڑے حکمرانوں کے بارے میں بھی پڑھا ہے کہ مدینہ النبیؐ کے احترام میں کئی میل دور سے وہ جوتے اتار لیا کرتے تھے مگر اب کیا صورتِ حال ہے! چند سال پہلے جب میں وہاں گیا تو سفیرِ پاکستان نے پاکستانیوں کی ایسی کہانیاں سنائیں کہ رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے مسلمانوں کے مقدّس ترین شہروں مکّہ اور مدینہ میں جن سنگین جرائم میں ملّوث ہوئے اور پکڑے جانے پر جیلوں میں بند ہیں، ان کی تفصیل سن کر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ ایسے بدبخت مسلمان ہی نہیں انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔

حکومتِ پاکستان کو نہ صرف ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کینسل کردینے چاہئیں بلکہ ان کے والدین، انھیں بھیجنے والوں اور ان کے سرپرستوں اور facilitators کے بھی پاسپورٹ منسوح کردینے چاہئیں۔ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ لندن میں بدتمیزی کرنے والوں کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائی شروع کی گئی ہے، جو درست اقدام ہے۔ دیارِ غیر میں اس طرح کی غنڈہ گردی ملک کی بدنامی کا باعث بنتی ہے مگر ملک کا وقار کسی بھی فرد کے وقار اور عزّت سے کہیں زیادہ مقدّس ہے۔ ملک کو بے وقار کرنے والوں کو نشانِ عبرت کیوں نہیں بنایا جاتا؟ ہم یہ کہہ کر صرفِ نظر نہیں کرسکتے کہ افغانی باشندوں نے پاکستانی پاسپورٹ بنوالیے ہیں اور وہ منشیات کی اسمگلنگ میں پکڑے جاتے ہیں۔

کچھ ایسے بھی ہیں مگر بہت کم۔ زیادہ تر پنجاب، سندھ اور کے پی کے باشندے ہیں جو انتہائی سنگین جرائم میں ملّوث ہونے کی وجہ سے وہاں گرفتار ہوئے اور اب جیلوں میں بند ہیں۔ پاکستانی باشندوں کی وارداتوں کی وجہ سے متحدّہ عرب امارات نے پاکستان کے کئی اضلاع کو ہی بلیک لسٹ کردیا ہے اور وہاں کے باشندوں کا یو اے ای میں داخلہ بند کردیا ہے۔ ملک سے باہر جانے والے اس قماش کے پاکستانیوں کے کوائف اور credentialsکیوں نہیں چیک کیے گئے اور جو ’’313 ‘‘ مجاہدین برطانیہ کی جیلوں میں بند ہیں وہ وہاں کونسا ’’جہاد‘‘ کرنے میں مصروف تھے کہ پولیس کے ہتھّے چڑھ گئے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی باشندے یورپ کے ہر ملک میں ہرقسم کے فراڈ، چیٹنگ اور جرائم میں ملوّث ہوکر ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

جتنی بھی انکوائریاں ہوں۔جتنی بھی وجوہات تلاش کی جائیں۔ سبب ایک ہی نکلے گا، ہمارا اخلاقی زوال (Moral Degradation)۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت قوم کی اخلاقی تربیّت کو ترجیحِ اوّل بناتی ہے، جاپان میں اسکول بھیجتے ہی بچوں پر کتابیں نہیں لاد دی جاتیں، پہلے پانچ چھ سال ان کی اخلاقی تربیّت کی جاتی ہے۔کچھ چیزیں ان کی رگ و پے میں اس طرح اتار دی جاتی ہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی جاپانی بھیک مانگتا ہوا نہیں ملے گا ۔کوئی جاپانی شہری دنیا کے کسی کونے میں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔

ہمارے ہاں بھی دو بڑی اہم تربیّت گاہیںہوتی تھیں۔ گھر اور اسکول۔ اس وقت دونوں ہی غیرفعال ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ والدین گھر پر بچوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھانا کیوں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اساتذہ کیوں ختم ہوگئے ہیں جن کی تنخواہیں قلیل مگر مقاصد جلیل ہوتے تھے، جو اسکولوں میں بچوں کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتے تھے اور جو انھیں رزقِ حلال کھانے، سچ بولنے، بڑوں کی عزّت کرنے اور قانون کا احترام کرنے کی اہمیّت اور فصیلت سمجھایا ہی نہیں ان کے رگ و پے میں اتار دیا کرتے تھے، اسکولوں کے اساتذہ بچوں کے دلوں میں جھوٹ، چوری، بدکاری اور نشے کے لیے نفرت پیدا کیا کرتے تھے اور یہ سب کچھ وہ کسی مالی مفاد کے بغیر کیا کرتے تھے۔

یہ اُس وقت ہوتا تھا جب انھیں بہت کم مشاہرہ ملتا تھا، ان کا رہن سہن انتہائی سادہ ہوتا تھا، وہ سائیکل پر سفر کرتے تھے مگر معاشرہ انھیں دل سے معمارِ قوم سمجھتا اور انھیں پلکوں پر بٹھاتا تھا۔ سماج میں استاد کو سب سے قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب جب کہ استادوں کو کئی گنا زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں، اسکولوں کے ٹیچرز موٹرسائیکلوں پر اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کاروں پر سفر کرتے ہیں، انھوں نے طلباء کی تربیّت کا فریضہ چھوڑ دیا ہے اور نئی نسل کی کردار سازی کے پیغمبرانہ مشن سے منہ موڑلیا ہے، چلیں یہ تو غیرفعال ہوگئے مگر ملک میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں دینی مدرسے ہیں، وہ طلباء کی اخلاقی تربیّت کیوں نہیں کررہے؟ تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں، اگر وہ شرکاء کی اخلاقی تربیّت کا بیڑہ اٹھالیتے تو آج اخلاقی قدریں زندہ ہوتیں اور اخلاقی گراوٹ کا یہ حال نہ ہوتا۔

سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو اخلاقیات کے سبق کیوں نہیں پڑھاتیں؟۔ یوں محسوس ہوتا ہے قوم کی اخلاقی تربیّت کی اہم ترین ذمّے داری سے ہر شخص نے ہاتھ اٹھالیا ہے اور وہ اس بنیادی ذمّے داری سے بے نیاز ہوکر بیٹھ گیا ہے۔

یہ ملکی وقار کا مسئلہ ہے اس لیے اس کے ہر پہلو کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں انتظامی نوعیّت کے سخت اقدامات کی بھی ضرورت ہے اور اصلاحی اقدامات کی بھی۔جو پاکستانی معمولی نوعیّت کی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے جیلوں میں قید ہیں انھیں آزاد کرانے کے لیے سفارتخانے اپنا کردار ادا کریں اور جو پاکستانی سنگین جرائم میں ملوّث ہوکر ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہیں، ان کے پاسپورٹ منسوخ کیے جائیں اور انھیں بھیجنے والے ایجنٹوں اور مددگاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ تربیّت کے غیرفعال اداروں کو فعال بنایا جائے، تعلیمی نصاب میں اخلاقی تربیّت کے لیے بڑا دلکش اور موثّر مواد شامل کیا جائے جسے آڈیوز اور وڈیوز کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں اتارا جائے۔ اس سلسلے میں میڈیاکا تعاون حاصل کرکے اسے بڑے نتیجہ خیر انداز میں استعمال کیا جائے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ آج کسی پاکستانی باشندے کا بیرون ملک جاکر کوئی جرم کرنے اور گرفتار ہوجانے کو عام سی خبر سمجھا جانے لگا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک قومی مشن سمجھ کر قوم کی اخلاقی تربیّت کی جائے اور پھر اگر کہیں کوئی پاکستانی کسی جرم کاارتکاب کرے تو اس پر ایوانِ اقتدار ہِل جانا چاہے، قومی وقار سے بڑھ کر کوئی چیززیادہ اہم نہیں۔

اندرون اور بیرون ملک میں اخلاقی اقدار اور روایات کو پامال ہوتے دیکھ کر جو دردمند پاکستانی دکھ محسوس کرتے ہیں۔ میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اہلِ اقتدار کو بھول جائیں کیونکہ انھیں حکمرانی کے مزے لُوٹنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے گندے کھیل سے ہی فرصت نہیں، اس لیے دردِدل رکھنے والے پاکستانی خود آگے بڑھیں، ہر سطح پر اپنے آپ کو منظّم کریں اور نئی نسل کی اخلاقی تربیّت کا بیڑہ اُٹھالیں۔ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ بیرون ممالک میں کوئی پاکستانی کسی جرم میں ملوّث نہ ہو اورپوری دنیا پاکستانیوں کے اخلاق اور کردار کی معترف ہوجائے۔

نوٹ: آج جب یہ لائنیں لکھ رہا ہوں 16 دسمبر کا وہ سیاہ ترین دن ہے جس روز پاکستان دولخت ہوا تھا۔ ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ آج کے روز زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ اگر ہمارے قومی ادارے اور قائدین اس عظیم سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھیں گے تو خدانخواستہ ہم پھر اس طرح کے حادثوں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس