صدر کے اعتراض کے بعد معاملہ مشترکہ اجلاس میں جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا، وزیر قانون اعظم تارڑ


اسلا م آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاہے کہ آئین کا آرٹیکل صدر مملکت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی بل پر اعتراض لگاکر اسے واپس قومی اسمبلی بھیج سکتے ہیں اور ایسی صورت میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے اس معاملے دوبارہ رائے سازی ہوتی ہے اور اس وقت موجود اکثریت ایسے کسی بھی بل کر منظور یا رد کرسکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے مدارس بل پر لگنے والے اعتراض کے بعد پارلیمان کا مشترکہ اجلاس نہیں طلب کیا جاسکا۔کوئی بھی قانون سازی صدر مملکت کے دستخط کے بغیر مکمل نہیں ہوتی،قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سے احترام کا رشتہ ہے، صرف ان کا ہی نہیں بلکہ پارٹی قیادت کے بھی آپس میں اچھا تعلقات ہے۔

انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ وزیراعظم شہباز شریف کے اس بل کے حوالے سے خیالات واضح ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرلیا جائے، اس حوالے سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، رانا ثنااللہ اور ان پر مشتمل ایک آئینی کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے جو مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل بیٹھ کر اس حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل بنائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کمیٹی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے قمر نوید بھی شامل ہوں گے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے بڑوں نے 1973 میں طویل مشاورت کے بعد مشترکہ طور پر آئین کو منظور کیا اور ہم سب ملکی اور پارلیمانی نظام کو چلانے کے لیے اسی آئین کی طرف دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 26ویں ترمیم کے لیے ہماری مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مشاورت ہورہی تھی تو ان کی طرف سے کچھ چیزیں ہمارے سامنے رکھی گئیں جس میں مدارس سے متعلق معاملہ بھی تھا جو پچھلی حکومت کے آخری وقت میں ادھورا رہ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ مولانا کے ساتھ جو ہمارا وعدہ تھا اس کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اس بل کو منظور کیا۔ آئین کا آرٹیکل 50 پارلیمان کی تعریف کرتا ہے کہ پارلیمان قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدر مملکت پر مشتمل ہے، یعنی عوام کے ووٹوں کی طاقت سے منتخب نمائندے مرکز اور صوبوں میں منتخب ہوکر صدر کا انتخاب کرلیتے ہیں تو صدر پھر اس ایوان کا اہم جز بن جاتا ہے۔ یعنی کوئی بھی قانون سازی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس پر صدر مملکت کے دستخط نہ ہوجائیں۔

اعظم نذیر تارڑ  نے کہاکہ جب دونوں ایوان کسی بل کو منظور کرلیں تو پھر اسے وزیراعظم کو بھیجا جاتا ہے اور پھر وزیراعظم اپنی رائے کے ساتھ اس بل کو ریاست کے سربراہ یعنی صدر مملکت کو ارسال کردیتے ہیں۔ اس موقع پر آرٹیکل 75 حرکت میں آتا ہے جس کے 2 حصے ہیں۔ اس آرٹیکل کا ایک حصہ یہ کہتا ہے جب کوئی بل صدر کی منظوری کے لیے انہیں بھیجا جائے تو وہ 10 روز کے اندر اس پر اپنی رائے دے دیں گے جبکہ دوسرا حصہ کہتا ہے کہ بجٹ کے علاوہ اگر انہیں کسی بل پر کوئی اعتراض ہو یا اس پر مزید بحث کی ضرور ہو تو وہ کسی بھی بل کو اسپیکر یا سینیٹ چیئرمین کے بجائے پارلیمنٹ کو دوبارہ بھیجتے ہیں اور یہ عمل آئین بننے کے بعد سے ہوتا چلا آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ لیکن مدارس بل سے متعلق جو ایک پیچیدگی آئی وہ یہ کہ 28 اکتوبر کو صدر کا پیغام اسپیکر یا سیکریٹریٹ کے بجائے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے آجانا چاہیے تھا کیونکہ آرٹیکل 75 کا دوسرا حصہ یہ کہتا ہے۔ اب اگر مشترکہ اجلاس میں موجود اکثریت کسی بھی بل کو منظور کرلے تو پھر وہ بل دوبارہ صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے جاتا ہے اور پھر اس موقعے پر صدر کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کے اس پر کسی بھی طرح کا کوئی اعتراض اٹھایا جائے۔ اس بار بھی اگرچہ صدر مملکت کو 10 دن کے اندر ہی دستخط کرنے ہیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کرسکے تب بھی 11ویں دن وہ بل قانون کا حصہ بن جاتا ہے۔انہوں نے پارلیمان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کی رائے کی اہمیت سے انکار نہیں اور اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مل بیٹھ کر اس پر بات کریں اور کوئی ایسا حل نکالیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو