نیویارک (صباح نیوز)اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم کے مطابق 2019 اور 2022 کے درمیان انسانی اسمگلنگ میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا، اور بچوں کے استحصال اور ان سے جبری مشقت لیے جانے کے واقعات غیرمعمولی طور پر بڑھے۔
یو این او ڈی سی کی جانب سے جاری گلوبل رپورٹ آن ٹریفکنگ اِن پرسن 2024 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2019 اور 2020 میں مشقت کے لیے اسمگل کیے جانے والوں کی تعداد میں 47 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ 2022 میں نوعمر متاثرین کی تعداد 31 فیصد بڑھ گئی، جن میں لڑکیوں کی تعداد میں 38 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد میں 61فیصد تعداد خواتین اور لڑکیوں کی رہی جبکہ 60 فیصد لڑکیوں کو جنسی استحصال کے لیے اسمگل کیا جاتا رہا۔ رپورٹ کے مطابق اسمگل کردہ لڑکوں میں 45 فیصد کو جبری مشقت جبکہ 47 کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، جس میں جرائم اور بھیک مانگنے پر مجبور کرنا بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آن لائن دھوکا دہی جیسے جرائم پر مجبور کرنے کے لیے اسمگل کیے گئے متاثرین تیسرے نمبر پر ہے جبکہ 2016 کے دوران مجموعی متاثرین میں ان کا تناسب ایک فیصد رہا تھا، تاہم 2022 میں یہ 8 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2022 میں افریقہ سے کم از کم 162 مختلف قومیتوں کے لوگوں کو 128 مختلف علاقوں میں اسمگل کیا گیا۔
مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ سرحد پار انسانی اسمگلنگ کے متاثرین میں 31 فیصد کا تعلق افریقہ سے تھا، ان میں بیشتر متاثرین کو براعظم کے اندر ہی اسمگل کیا گیا جہاں نقل مکانی عدم تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں حالات بگڑ رہے ہیں۔ یو این او ڈی سی نے خبردار کیا کہ افریقہ کے بیشتر حصوں میں انسانی اسمگلنگ کا شکار بننے والوں میں بالغوں کی نسبت بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔