مرگی کی تاریخ،علامات و علاج ۔۔۔تحریر قاسم عباس


ایپی لیپسی (مرگی) کی تاریخ:
مرگی کو انگریزی زبان میں ایپی لیپسی کہتے ہیں۔ یہ بیماری تب سے ہے جب سے دنیا بنی ہے۔ یہ بیماری بادشاہوں، پیروں، فقیروں کو بھی ہوئی ہے، کسی خاص طبقے کا کوئی بھی فردایسا نہیں جس کو یہ بیماری نہیں ہوئی یا نہیں ہو سکتی۔ جب شروع شروع میں مرگی کی بیماری کا پتہ چلا تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بیماری جن لوگوں کو ہوتی ہے وہ لوگ عام طور پر انٹیلی جنٹ (خاص صلاحیتوں رکھنے والے) لوگ ہوتے ہیں اور یہ تصور تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی ایک طاقت ہے اور یہ بیماری صرف انہی لوگوں کو ہوتی ہے جو کہ بادشاہ، وزیر، خلیفہ یا پیر، فقیر بنتے ہیں۔ یہ تصور کافی عرصہ تک رہا اور اس کے بعد ایپوکریٹ نامی ایک شخص جس نے آج سے سولہ سو سال پہلے کہا کہ یہ تصور غلط تصور ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جو بندے کے اوپر حاوی ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری بڑے بڑے لوگوں کو ہوئی۔ جیورسیزر، ارسطو، عبدالستار ایدھی مشہور نام ہیں جن کو یہ بیماری تھی لیکن جیکسن نامی ایک انگریز ڈاکٹر تھا جس نے پہلی مرتبہ 1800ء میں یہ کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے نہ ہی یہ کوئی سپرپاور ہے اور نہ ہی اس سے کوئی جن قابو میں آتے ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی پیر، فقیر بنتا ہے بلکہ یہ بیماری دماغ کے اندر ایک سرکٹ Run ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے جو بجلی کی تاروں میں جیسے کرنٹ دوڑتا ہے ایسے ہی دماغ کے اندر سرکٹ دوڑتا ہے اگر اس سرکٹ کے دوڑنے کے دوران رکاوٹ پیدا ہو جائے تو مرگی کی بیماری ہو جاتی ہے۔ اُس دن کے بعد سے مرگی کو بیماری سمجھا گیا اور اس کی تشخیص ہوئی اور اس بیماری کا علاج شروع ہوا۔ دماغ کے اندر تمام خلیے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوتے ہیں اور دماغ کا ایک سیل یا خلیہ شعاعیں نکالتا ہے۔ اس کی شعاعیں دوسرے سیل پر پڑتی ہیں اور یہ سیلوں کی شاخیں ایسے روشن ہوتی جاتی ہیں جو ایک کرنٹ کی ماند چلتی ہیں۔ یہ ایک نارمل انسان کے دماغ کا کام کرنے کا عمل ہوتا ہے اور ایک سیل فی سیکنڈ میں دوسرے سیل کو روشن کرتا ہے اور اگر یہ سیل غلطی سے فی سیکنڈ میں ایک سیل کو شعاعیں دینے کی بجائے دو یا چار سیلوں کو شعاعیں دینا شروع کر دے تو اس کا مطلب ہوا کہ اس نے نارمل سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیا ہے تو یہ ایک نارمل عمل نہیں ہے۔ اس طرح ایک سیل دو سیلوں کو روشن کرتا ہے اور ایسے دو سیل چار سیلوں کو روشن کرتے ہیں اور اس طرح یہ عمل بڑھتا چلا جاتا ہے جس سے مریض کو دورہ یا جھٹکے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہر 100 میں سے پانچ افراد کو مرگی کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت یہ بیماری ترقی پذیر ممالک میں بہت زیادہ ہے جن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بچے کی پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ہمارے پاس وہ سہولیات اور حفاظتی اقدامات نہیں کئے جاتے جو ترقی یافتہ ممالک میں ہیں جن میں دماغ پر چوٹ لگنا، حادثے اور اس طرح کے دوسرے مسائل ہیں، موثر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماری ترقی پذیر ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ بیماری 10 سے 15 فیصد ہے۔ مطلب یہ کہ 100 میں سے 10سے 15 افراد مرگی کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ زندگی میں بہت سے مقام آتے ہیں جہاں یہ بیماری بہت زیادہ ہوتی ہے یا بہت زیادہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں جن میں ایک مقام (دور) بچپن اور دوسرا مقام (دور) بڑھاپا ہے۔ بچوں میں یہ بیماری پہلے دس سال میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک سال سے پانچ سال کے بچوں کو یہ بیماری سب سے زیادہ ہوتی ہے پھر جوانی میں یہ بیماری کچھ کم ہو جاتی ہے یا رک جاتی ہے لیکن جب بندہ بوڑھا ہونے لگتا ہے تو یہ بیماری پھر زیادہ ہو جاتی ہے۔ جب ہم بزرگ ہوتے ہیں تو دماغ کی دیگر بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جیسے فالج، سٹوک یا کچھ اور دماغی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں تو اس بیماری میں اضافہ آ جاتا ہے۔ مرگی کی بیماری ایک طرح کی نہیں ہوتی ہر بندے کی مرگی کی بیماری مختلف ہوتی ہے۔

مرگی کی نشانیاں:
مرگی کی تشخیص کرنا بہت مشکل ہے اس کی کوئی 50 یا 60 ایسی نشانیاں ہیں جو ان کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں لیکن اس کی کچھ علامتیں خاص ہوتی ہیں جسے مریض اپنے منہ سے ایک خاص قسم کی آواز نکالتا ہے اور اس کے ہاتھ اور پاؤں اپنی جگہ پر ساکت ،سخت اوراکڑ جاتے ہیں۔ اس کے بعد مریض کے جسم کو جھٹکے لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد مریض بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی مرگی کو ”جنرلائز ایپی لیپسی” کہتے ہیں۔ جنرلائز ایپی لیپسی میں دماغ کے ایک خاص حصے کی بجائے بہت سے حصوں میں سرکٹ دوڑ رہا ہوتا ہے جس سے سارا دماغ متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے مریض کو بڑے جھٹکے لگتے ہیں۔ دوسری ایک خاص قسم کی مرگی ہے اگر دماغ کے کسی ایک خاص حصے میں سرکٹ یا کرنٹ دوڑے اور دماغ کا ایک حصہ متاثر ہو تو اس مرگی کو ”فوکل ایپی لیپسی” کہتے ہیں۔ ”فوکل ایپی لیپسی” میں انسان کے جسم کا ایک حصہ نارمل نہیں رہتا باقی سارا جسم ٹھیک ہوتا ہے اور وہ اس دوران کوئی اور کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر پاتا ہے یا وہ کچھ دیر کیلئے اس ماحول سے بالکل غیرحاضر ہو جاتا ہے لیکن اس کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہر بات، ہر بات، ہر حرکت، ہر آواز سن سکتا ہے لیکن اس جھٹکے یا کیفیت کے دوران وہ آپ کو بتا نہیں سکتا اگر آپ اس سے پانچ منٹ بعد پوچھیں تو وہ آپ کو سب باتیں اور حرکت بتا دے گا کہ اس دوران کیا کیا ہوا۔ یہ ”فوکل ایپی لیپسی” کی سادہ قسم ہے ،مرگی کی پیچیدہ (مشکل) قسم میں بھی اسی قسم کا جھٹکا لگتا ہے۔ اسی طرح ایک سائیڈ متاثر ہوتی ہے لیکن مرگی کی اس پیچیدہ (مشکل) قسم میں سامنے والے کو ایسے لگتا ہے۔ جیسے وہ سب دیکھ رہا ہے لیکن اس قسم میں مریض کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اس دوران کیا کر رہا تھا اور اس کے اردگرد کیا باتیں اور کیا ہو رہا تھا۔ اس قسم میں جب بعض مریضوں کو جھٹکا لگتا ہے تو وہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں یا لڑائی کرنا شروع کر دیتے ہیں یا چھلانگیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دوران ان کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اس قسم کی مرگی کو پیچیدہ (کمپلیکس ایپی لیپسی) کہتے ہیں۔ انسانی دماغ کے ہر حصے کا اپنا کام ہے جیسے تصور کرنا، سوچنا، بولنا اور یادداشت جیسے کام کرتا ہے اگر دماغ کے کسی بھی حصے میں سرکٹ کا عمل تیز ہو جائے تو جھٹکے بھی اس حصے کے حساب سے ہوتے ہیں۔ دماغ کے دائیں طرف والا حصہ انسانی جسم کے بائیں طرف والے حصے کو کنٹرول کرتا ہے اور دماغ کے بائیں طرف والا حصہ جسم کے دائیں طرف والے حصے کو کنٹرول کرتا ہے اگر دماغ کے دائیں طرف والے حصے میں مسئلہ ہو جائے تو جسم کا بائیں طرف والے حصے میں مسئلہ ہو جاتا ہے۔ عام طور پر بچوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بچہ جب ڈیڑھ سے دو سال کا ہوتا ہے تو اس کو بخار ہوتا ہے اور جھٹکا لگتا ہے جس سے اس کو یہ بیماری ہو جاتی ہے لیکن وہ اس جھٹکے کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں جوانی میں پھر اس پر یہ بیماری حاوی ہو جاتی ہے اور اس کو جھٹکے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ جب دو ڈیڑھ سال کی عمر میں بچے کو بخار ہوتا ہے اور جھٹکا لگتا ہے تو اس دوران یہ بیماری شروع ہو جاتی ہے یہ بیماری وراثتی بھی ہوتی ہے۔ مریض بتاتے ہیں کہ بعض دفعہ جب ان کو بو آتی ہے تو جھٹکا لگتا ہے اور بعض کو کانوں میں آوازیں آتی ہیں تو پھر جھٹکا لگتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو قے ہوتی ہے تو پھر جھٹکے لگتے ہیں یا کہتے ہیں کہ پیٹ میں درد ہوتا ہے تو پھر جھٹکا لگتا ہے۔ یہ سب دماغ کے ان خاص حصوں کی وجہ سے ہوتا ہے جہاں یہ سرکٹ تیز چلتا ہے تو ان کو یہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس بیماری میں یہ سب جھٹکے سے پہلے اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ مریض کو متنبہ کرتا ہے کہ آپ کو اب جھٹکا لگنے والا ہے۔ عام طور پر بچے کچھ دیر کے لئے خاموش اور ساکت ہو جاتے ہیں اس عمل کے دوران ان کی بیماری کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے سکول میں ان کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔

مرگی کی وجوہات:
مرگی کی کچھ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوتی ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ دماغ کو کوئی نقصان پہنچا ہو۔اس میں جب بچے کی پیدائش ہو رہی ہوتی ہے تو پیدائش میں کوئی دشواری پیدا ہو جائے یا وہ وقت پر رونا شروع نہ کرے تو اس وقت یااس کے بعد بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر بچہ ٹھیک پیدا ہوا ہو تو اس کے بعد اس کوانفیکشن،بخار یا گردن توڑ بخار کی وجہ سے دماغ کو جھٹکے لگتے ہیں بعض دفعہ بچے کو بچپن میں بخار ہوتا ہے تو اس بچے کو جھٹکے لگتے ہیں۔اس سے بھی یہ بیماری ہو جاتی ہے۔تیسری وجہ دماغی چوٹ(ہیڈ انجری) ہے ہمارے ملک میں دماغی چوٹ(ہیڈ انجری) ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں لوگ سیفٹی کا خیال نہیں رکھتے اور کچھ لوگوں میں دماغ کی رسولی(برین ٹیومر)،سٹوک بھی وجہ بنتی ہے اگر فالج دماغ پر اثر انداز ہوا ہوتو اس سے بھی مرگی کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ میڈیکل ایشوز بھی ہیں جسے بلڈ شوگر،اس کے علاوہ جسم میں سوڈیم،کیلیشم کی کمی یا زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ہر انسان کے اندر 23 کروموسومز ہوتے ہیں 23 ماں سے آتے ہیں23 باپ سے آتے ہیں۔46 کا ایک گروپ بنتا ہے اگر ان میں کوئی گڑ بڑ ہو جائے تو بھی یہ بیماری خاندان میں شروع ہو جاتی ہے اگر یہ بیماری خاندان میں شروع ہو جائے گی تو پھر کزن میرج کی وجہ سے یہ بیماری اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔

مرگی کے نقصانات:
مرگی کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟مرگی کے مریض کو جیسے جیسے جھٹکے لگتے ہیں ان کی یادداشت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اس کی سکول یا اپنے کام میں پرفارمنس کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ادویات کا اپنا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے۔وہ بھی اس پر اثر انداز ہوتیں ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بندہ اگر چل رہا ہے تو اس کو دماغی چوٹ(ہیڈ انجری) لگ جائے تو یہ دماغی چوٹ بہت سخت یا نقصان بھی ہو سکتی ہے جس سے ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے اس کے علاوہ ایک دم جھٹکا لگنے سے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اس وجہ سے بھی موت واقع ہو سکتی ہے اس بیماری کا علاج یا اس کو روکنے کے لیے ادویات لازمی استعمال کرنی چاہیں بصورت دیگر انسانی جان کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ایم آر آئی سکین اس بیماری کیلئے بہت بہتر ہے۔

مرگی کاعلاج:
اس بیماری کو تین طریقے سے کنٹرول یا اس کا علاج کیا جا سکتا ہے اگر تو یہ بیماری ابھی شروع ہوئی ہو تو اس کیلئے مریض کو اچھی خوراک دی جانی چاہیے جس میں High فیٹ ہو جیسے مرغی،مچھلی اور Low کاربوہائیڈریٹ ہوں جیسے چاول،آلو وغیرہ۔دوسرے طریقے میں یہ بیماری ادویات سے کنٹرول کی جاتی ہے۔اس میں بھی کچھ لوگ ادویات کو استعمال کرنے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں مگر کچھ لوگوں میں ان ادویات کے استعمال سے کچھ اور مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں یا ان ادویات سے یہ بیماری بعض دفعہ کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے پھر یہ ادویات ان پر کنٹرول نہیں کر پاتیں۔اس صورتحال میں پھر مریض کو اگلے طریقے کی طرف جاناپڑتا ہے اور اس کا تیسرا طریقہ آپریشن ہوتا ہے اور آپریشن بھی ان مریضوں کا ہو سکتا ہے جو ڈیڑھ سال تک ادویات استعمال کرتے رہے ہوں اور ایک سے زیادہ اقسام کی ادویات استعمال کیں ہوں اور پھر بھی ان کی بیماری یا دورے(جھٹکے) کنٹرول نہ ہوئے ہوں یا ان کی بیماری ختم نہ ہوئی ہو۔اس طرح کی صورتحال کو (انٹری پٹیبل)ایپی لیپسی کہتے ہیں آپریشن سے دماغ کی سرجری کی جاتی ہے اور دماغ کے اندر(ایب نارمل) سیلوں کو آپریشن کر کے نکال دیا جاتا ہے۔آپریشن بھی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک یہ کہ دماغ میں کوئی خاص کام نہیں ہے تو اس کو نکال دیا جانا بہتر ہے مگر دماغ کے اندر بعض ایسے حصے ہیں جن کا ہونا انسان کیلئے بہت لازمی ہے جیسے دیکھنا،بولنا،حرکت کرنا وغیرہ یہ خاص کام ہیں جو دماغ سرانجام دیتا ہے اگر ایپی لیپسی ایسے خاص حصوں میں ہو تو اس صورت میں دماغ کے اندر ایک حفاظتی دیوار”باونڈری وال”لگا دی جاتی ہے جو اس سرکٹ کو ایک سے زیادہ سیلوں تک نہیں جانے دیتی۔تیسری صورت کا آپریشن اس صورت میں کیا جاتا ہے کہ جب مریض کے دماغ میں مختلف حصوں میں ہو تو اس صورت میں یہ سرکٹ جہاں سے دماغ میں منتقل ہوتا ہے وہاں پر ”وائر” لگا دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ایک بیٹری لگا دی جاتی ہے جو دماغ کے اندر ہی رہتی ہے اور اس کا ریموٹ کنٹرول مریض کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو مرگی کے جھٹکوں کو کنٹرول کرتی ہے اس صورتحال میں جب دماغ میں (ایب نارمل) سرکٹ دماغ میں آتا ہے تو یہ وائر اور بیٹری اس ایب نارمل کو نارمل کرکے دماغ تک پہنچاتی ہے جس سے جھٹکے کنٹرول ہوتے ہیں۔

حفاظتی تدابیر:
مرگی کے جھٹکے یا دورے پڑنے کی صورت میں میں کچھ احتیاطی تدابیر کیا کرنی چاہیے۔ایک تو یہ کہ مریض کو ایک سائیڈ پر سیدھا لیٹا دیں اور اس نے ٹائی یا اس طرح کی کوئی چیز پہنی ہوئی ہے جس سے اس کی گردن گرفت میں ہو تو اسے کھول دیں کیونکہ اس دوران اس کے گلے میں یہ گرفت پھندے کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے اور اگر اس کے ارد گرد کوئی تیز دھار آلات جیسے چھری ،خنجر اور اس طرح کی دوسری اشیاء جن سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہو وہ اٹھا لیے جائیں کیونکہ اس جھٹکوں کے دوران مریض اپنے ہاتھ پاؤں مارتا ہے جس سے اس تیز دھار آلے کی وجہ سے مریض زخمی نہ ہوجائے اور اس کے سر کے نیچے کوئی نرم چیز جیسے تکیہ وغیرہ رکھ دیں کیونکہ اس کیفیت میں مریض اپنا سر بھی مارتا ہے تو اس تکیہ کی وجہ سے اس مریض کو دماغی چوٹ سے بچایا جا سکے اور اس دوران اس مریض کے منہ میں کچھ نہ ڈالا جائے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس کیفیت کے دوران مریض کے منہ میں پانی ،جوس وغیرہ ڈالتے ہیں جو اس مریض کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور اس دورے یا جھٹکوں کا ٹائم بھی نوٹ کرنا چاہیے کہ یہ کتنے منٹ یا کتنے وقت تک یہ کیفیت رہتی ہے۔اس بیماری میں خواتین حاملہ ہو سکتی ہیں یا نہیں ؟یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے ۔اس بیماری کے دوران عورت حاملہ ہو سکتی ہے لیکن وہ اپنے ڈاکٹر کو اس بیماری کے بارے میں پہلے بتائیں کہ ان کو یہ بیماری لاحق ہے تو ڈاکٹر ان کی میڈیکیشن کرے اور حفاظتی تدابیر بتائے ۔جن لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے وہ تیراکی نہ کریں اور اگر ان کی بیماری کنٹرول سے باہر ہے تو وہ کسی فردکو بتا کر جائیں کہ وہ باتھ روم جا رہے ہیں اور وہ دروازہ اندر سے بند نہ کریں اور مرگی کے مریض کو گاڑی،سائیکل،موٹر سائیکل یا کسی قسم کی ڈرائیونگ سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان کے لیے بھی اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔بیرون ممالک میں خاص قسم کے کتے ہوتے ہیں جن کو ٹریننگ دی جاتی ہے کہ جب مریض کو جھٹکے لگنے والے ہوتے ہیں تو وہ کتے پہلے سے جان جاتے ہیں اور بھونکنا شروع کر دیتے ہیں جس سے مریض کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اب اس کو جھٹکے لگنے والے ہیں تو مریض اپنی حفاظتی تدابیر کر لیتا ہے ۔یہ کتے صرف ان لوگوں(مریضوں) کیلئے ہوتے ہیں ۔جن کو اپنی بیماری کی کیفیت کا پہلے سے پتہ نہیں چل سکتا یا ان کو اچانک جھٹکے لگنا شروع ہو جاتے ہیں ۔مرگی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے بس میں نہیں ہے۔اس بیماری کے ساتھ ایک انسان بالکل صحت مندانہ زندگی گزار سکتا ہے اکثر یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ میٹھا کھانے سے یہ بیماری ہو جاتی ہے تو میٹھا کھانے سے یہ بیماری نہیں ہوتی۔مرگی کی ادویات کے بہت زیادہ سائیڈ ایفیکٹس ہیں۔سائیڈ ایفیکٹس ظاہر ہونے پر آپ خود کچھ نہ کریں بلکہ ڈاکٹر کے پاس جائیں اور اس کے مشورہ کریں پھر وہ آپ کو اس کے بارے میں بتائے گا کہ آپ کو کیا کرنا ہے آیا کہ آپ کی ادویات تبدیل کرنی ہیں یا اس کو کم کرنا ہے اس لیے آپ خود کچھ نہ کریں یہ سب ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کیا جائے۔مرگی کے جھٹکوں کی بھی بہت سے قسمیں ہیں بعض دفعہ ایک مریض کو مختلف قسم کے جھٹکے بھی لگ سکتے ہیں اور یہ اپنی شکل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔کاربوہائیڈریٹس کم استعمال کرنے چاہیں کاربوہائیڈریٹس چاول،آلو،روٹی میں پائے جاتے ہیں۔مرغی اور مچھلی کا گوشت استعمال ہو سکتا ہے۔مرگی کے جھٹکوں کے بعد انسان کو تھکن،نیند،جسم درد جیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مرگی کے بعض مریضوں کو جھٹکے پڑنے سے پہلے پتہ لگ جاتا ہے اور بعض مریضوں کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کو جھٹکے لگنے والے ہیں۔دوسری قسم انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے اگر کسی مریض کو ٹیلی ویژن دیکھنے یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے جھٹکے لگتے ہیں تو اچھا یہ ہے کہ وہ ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر استعمال نہ کرے اگر کسی کو اس طرح کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے تو وہ ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر پر کام کر سکتا ہے۔یہ جھٹکے دن کو بھی ہو سکتے ہیں اور رات کے وقت بھی ہو سکتے ہیں۔اس کا کوئی خاص ٹائم یا جگہ نہیں ہے۔