چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم کی تعیناتی کیس سننے والا 6رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مس عالیہ نیلم کی تعیناتی کیس کے حوالہ سے درخواسست سننے والا 6رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا ۔بینچ کے سربرا ہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کر لی۔دونوں ججز نے اپنے علاوہ دیگر ججز پر مشتمل آئینی بینچ کے سامنے رجسٹرارآفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست مقررکرنے کاحکم دے دیا۔جبکہ آئینی بینچ نے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں سے حکومتی معاہدوں کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کردئیے۔بینچ نے پاور سیکٹر کے حوالہ سے 5اگست کو بننے والی ٹسک فورس کی کاروائی کے حوالہ سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔

جبکہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ای او بی آئی کی پینشن میں اضافہ نہ ہونے کے خلاف کیس میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔جبکہ سپریم کورٹ نے قیدیوں کو جیل میں یکساں سہولیات دینے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے قراردیا ہے کہ درخواست گزار ہائی کورٹ یا متعلقہ صوبائی حکام سے رجوع کرسکتے ہیں۔

جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہ کیا ہم پالیسی معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں، یہ حکومت کاصوابدیدی اختیارہے۔ ہم آرڈر پاس کرتے ہیں کیا اُن پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ کیا قیدیوں کی سہولیات کا جائزہ لینا سپریم کورٹ کا کام ہے؟ جیل قوانین پراعتراض ہے تو متعلقہ صوبے یا ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ ہم اٹارنی جنرل سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے حوالہ سے بھی پوچھیں گے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل6 رکنی آئینی بینچ نے طاہرفرازعباسی اوردیگر کی جانب سے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کی 10جولائی 2024کوجاری نوٹیفیکیشن کے تحت تعیناتی کے خلاف دائر د رخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے وفاق پاکستان اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابدشاہد زبیری اور شفقت محمود بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس امین الدین خان کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ساری درخواستیں اکٹھی سماعت کے لئے مقررہوگئی ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل شفقت چوہان کاکہنا تھا کہ سینئر ترین جج کو چیف جسٹس نہیں بنایا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کس طرح تعیناتی سے متاثر ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی بات کے دوران وکیل بولتے رہے جس پر جسٹس جمال کان مندوخیل نے انہیں مخا طب کرتے ہوئے کہا سننے کی عادت ڈالیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ تعیناتی سنیارٹی کے مطابق نہیں کی گئی، یہ انصاف کی فراہمی کامعاملہ ہے۔ اس دوران عابدشاہد زبیری سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے زریعہ پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاعابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلام آباد آکرکردلائل دیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ سینیارٹی کوئی بنیادی حق نہیں اور ماضی میں سینیارٹی سے ہٹ کر تعیناتی کی مثالیں موجود ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کاوکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم 2ارکان میں اورجسٹس جمال خان مندوخیل فیصلہ کررہے ہیں کہ کیس نہ سنیں،ہم دونوں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن ہیں، درخواست میں جوڈیشل کمیشن کے کام کے حوالہ سے اورجوڈیشل کمیشن کوفریق بھی بنایا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل نے ذاتی وجوہات کی بنا پر کیس سننے سے معذرت کر لی۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ 2ارکان کے علاوہ دیگر ججز پر مشتمل آئینی بینچ رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ درخواست پر سماعت کرے۔ بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔  جبکہ آئینی بینچ نے قیدیوں کو جیل میں یکساں سہولیات دینے سے متعلق چوہدری مظہر اقبال، حماد سعید ، محمد اویس اور غضنفر محمود کی جانب سے دائر 4درخواستوں پر سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے پیش ہوکرکہا یہ درخواستیں مخصوص افراد سے متعلق ہیں۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ ہماراکام نہیں۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا قیدیوں کی سہولیات کا جائزہ لینا سپریم کورٹ کا کام ہے؟ جیل قوانین پراعتراض ہے تو متعلقہ صوبے یا ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔ جسٹس امین الدیں نے ہدایت کی کہ اس طرح کی درخواستیں سپریم کورٹ نہ لائیں جب کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سہولیات سے متعلق درخواست پرسن ٹو پرسن مختلف ہے۔بعد ازاں عدالت نے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھا اور درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔جبکہ بینچ نے ای اوبی آئی پینشنرز کی جانب سے دائر 66درخواستوں پرسماعت کی۔ درخواستیں علی محمد، ملک نورحسین، عابدحسین، حاجی محمد اقبال، عاشق حسین، محمد رفیق، محمد ریاض، محمد اقبال، رانا محمد رمضان، ظفراقبال اوردیگر کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔ ای اوبی آئی کی جانب سے محمد عمر ریاض بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشدین نواز قصوری پیش ہوئے۔ جبکہ درخواست گزارواوران کے وکلاء بھی عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ علی محمد کون ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ علی محمد کی درخواست ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ای اوبی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ کیاسب کو پینشن دے رہے ہیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ دے رہے ہیں۔ ای او بی آئی کے وکیل نے کہا کہ پینشن کے اضافے کا کیس ہے، 18ویں ترمیم کے بعد ایک عرصے تک صوبوں کو ای او بی آئی کی منتقلی کا معاملہ چلتا رہا، مشترکہ مفادات کونسل نے حتمی طور پر ادارہ وفاقی حکومت کے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کسی فریق کوروسٹرم پر بلائیں۔ اس پر ایک پینشنرمحمد اشرف نے آکر بات کرنا شروع کی توجسٹس محمد علی مظہر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریرکاوقت نہیں، تکلیف کیا ہے وہ بتادیں۔

جسٹس امین الدین خان کاپینشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پچھلے سال کتنے پیسے مل رہے تھے، جون میں کتنی پینشن مل رہی تھی۔ پینشر کاکہناتھا کہ مجھے اونچا سنائی دیتا ہے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاپینشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ باقی ساری باتیں سمجھ آگئیں ہماری بات سمجھ نہیں آئی۔ پینشنر کاکہنا تھا کہ کم ازکم 37ہزارتنخواہ کے برابر پینشن دی جائے،میں جس وقت ریٹائرڈ ہوامیری تنخواہ 45ہزارروپے تھی۔ درخواست گزار نے کہا کہ اسے کئی برس سے ساڑھے دس ہزار پینشن دی جا رہی ہے، پینشن میں اضافہ نہیں کیا جا رہا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 45ہزارروپے تنخواہ ہے اور 10ہزارپینشن دے رہے ہیں، ای اوبی آئی کاادارہ ملک بھر سے اتنی کنٹریبیوشن لیتا ہے، کوئی فارمولابناکردیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کافیصلہ کدھر ہے، اگر ای اوبی آئی کامحکمہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے توپھر صوبوں کوسارے پیسے دینے پڑیں گے۔ راشدین نوازقصوری کاکہنا تھا کہ دبلیو ڈبلیو ایف کامحکمہ صوبوں کو منتقل ہوا ہے۔ ای او بی آئی کے وکیل نے بتایا کہ حکومت کی ہدایات کے مطابق پینشن میں اضافہ ہو رہا ہے، 2015 میں پینشن سے متعلق سپریم کورٹ سے کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ای او بی آئی کے وکیل نے کہا کہ پینشن کو 3500 سے 6 ہزار روپے کرانے کے لیے کیس آیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر تنخواہ کا46فیصد پینشن کردی ہے توپھر 45ہزارتنخواہ پر 22یا23ہزار پینشن ہونی چاہیئے تھی، اگراتنااضافہ کردیا ہے توہم معاملہ ختم کردیتے ہیں۔ ای اوبی آئی کے وکیل محمد عمرریاض کاکہنا تھا کہ اس سے زیادہ کردی ہے، 20فیصد پینشنززکوفارمولے کے تحت جبکہ 80فیصد کوساڑھے 10ہزارکے حساب سے پینشن دی جارہی ہے۔

وکیل کاکہنا تھا کہ اگر پینش میں اضافہ کرنا ہے توپھرتنخاہ اور کنٹریبیوشن میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا، لاہور ہائی کورٹ نے ہمارے خلاف جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے جس کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التواہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر محکمہ منتقل ہو گیا ہے توصوبے اپنے قانون بنالیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ سندھ نے اپنا قانون بنایا ہے جبکہ دیگر تینوں صوبوں نے قراردادیں پاس کی ہیں کہ ای اوبی آئی کامحکمہ وفاق کے پاس رہنا چاہیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر ای اوبی آئی وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کسی ایک پینشنر کاکیس ماڈل کے طور پر بناکردے دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیس 2013سے زیر التواہے۔ عدالت نے ای اوبی آئی وکیل کوحکم دیا کہ وہ درخواست گزار محمدشرف کے کیس کی شیٹ بناکرعدالت کوفراہم کریں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ای او بی آئی کی پینشن میں اضافہ نہ ہونے کے خلاف کیس میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

بعد ازاں ای او بی آئی پینشنرز کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔جبکہ بینچ نے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور آئی پی پیز معاہدوں کے خلاف دائر درخواستوں پرسماعت کی۔ درخواستیں اختراقبال ڈار، محمد اسد منظور بٹ، وفاق ایوان ہائے صنعت وتجار ت پاکستان (ایف پی سی سی آئی)، اشبا کامران ،امتیاز گل اوردیگر کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں نے رجسٹرار اعتراضات کیخلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کادرخواست گزاروں کے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت کم ہوگئی کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاہم ایسے معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں۔

اس پر وکیل سید محمد فیصل حسین نقوی کاکہنا تھا کہ ریکوڈک کیس میں آپ کے سامنے میں پیش ہواتھا۔ وکیل کاکہنا کہ بجلی کی فراہمی بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، ہم نے عدالت کے سامنے کرپشن اور بڈنگ دونوں ایشوز رکھے ہیں،100 میں سے ایک معاہدے کے لیے بھی درست بولی نہیں ہوئی، سال 1994 سے معاہدے ہورہے ہیں اور دہرائے جا رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ بالکل بجلی کی فراہمی بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، عوامی مفاد کا مقدمہ ہے ہم مداخلت کرسکتے ہیں، مستقبل کیلئے ہدایات بھی دی جاسکتی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ حال ہی میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پراچھی شرائط پر نظر ثانی ہوئی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہم پالیسی معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں، یہ حکومت کاصوابدیدی اختیارہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 5اگست2024کو پاورسیکٹر کے حوالہ سے ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے ہوسکتا ہے معاملات میں بہتری ہو۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پاورسیکٹر کے حوالہ سے ٹاسک فورس نے کام شروع کردیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ حکومت اورکمپنیاں معاہدوں کے مطابق پابندی کررہی ہیں کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم آرڈر پاس کرتے ہیں کیا اُن پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کررہے ہیں۔ عدالت نے آفس اعتراض ہٹاتے ہوئے درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی۔ جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ پاورسیکٹر کے لئے حکومت کی جانب سے ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔ اٹارنی بتائیں کہ ٹاسک فورس کے قیام کے بعد کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے حوالہ سے بھی اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔