ایک تو کڑوا کریلہ دوسرا نیم چڑھا کے مصداق سابق خاتون اول بیگم بشریٰ خان نے سوشل میڈیا پر جہاں وہ 24 نومبر کے مبینہ احتجاجی کال کو کامیاب بنانے کے لئے اپنے ایم این ایز، ایم پی ایز،سینیٹرز، راھنماؤں اور کارکنوں کوجو ھدایات دے رھی تھیں اسکے ساتھ انہوں نے سعودی عرب پر ایسا الزام لگا دیا جس کا سر ھے نہ پیر اور جسکی وجہ سے پاک سعودی تعلقات کو خراب کرنے کے لئے جہاں پاکستان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا وھاں اپنے پاؤں پر بھی ایسی کلہاڑی ماری کہ اس خود کش حملے کا زخم اب مندمل ھونے کا نہیں۔
سیانوں نے صدیوں پہلے یہ دانش بتا دی تھی کہ جس کا کام اسی کو ساجھے اور بجائے تو ٹھینگا باجے۔
سیاست بچوں کا کھیل نہیں ھوتا اس کے لئے تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ھوتی ھے اور تربیت تعلیم کے لئے زانوے تلمذ کے ساتھ ساتھ صبر اور برداشت کی متقاضی ھوتی ھے۔
بانی پی ٹی آئی کی شہرت کرکٹ کے ایک بین الاقوامی کھلاڑی اور پھر ایک قومی سطح کے ھسپتال کے لئے چندہ جمع کرنے والے شخص کی رھی ھے سیاست میں عمران خان 15/20 سال تک اپنا نام و مقام نہیں بنا سکے تاوقتیکہ پاکستان کے نظریاتی مخالفین,لابیوں غیر ملکی و ملکی انٹیلیجینس ایجنسیوں نے انہیں اپنی گود نہ لے لیا اور کٹھ پتلی ایکٹر کے مثل استعمال کیا۔ انکی طبعی ھٹ دھرمی،انا اور ضد نے انہیں شہرت تشہیر اور تماشا ساز مجمع باز تو بنایا لیکن وہ ایک قومی سیاستدان نہ بن سکے۔ جس میں تحمل، تدبر،ٹھہراؤ اور قومی بصیرت نظر آسکے چنانچہ اس نے ایسا کوئی موقع ھاتھ سے نہیں جانے دیا کہ جب پاکستان کے قومی مفادات کا تقاضا ھوا ھو کہ وہ اپنی اس مہم جوئی کو پاکستان کے قومی و سٹریٹجک مفادات کے تابع رکھ کر سیاست کریں۔2014 کے دھرنوں سے لیکر اس وقت 24 نومبر احتجاج کی کال تک جب بھی کسی بین الاقوامی شخصیت کا پاکستان کا دورہ ھو اور عمران خان کی اسلام آباد ڈی چوک تک چڑھائی کا احتجاج نہ ھوا ھو یہ انکا وطیرہ ھی نہیں رھا ۔ یہ سب کچھ انا” فانا” نہیں ھوتا بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ھوتا ھے۔
عمران خان نے دورہ سعودی عرب کے دوران ھی کراؤن پرنس کے بارے ایسی مشکوک اور مذموم گفتگو کی جس پر انہیں مہمانداری میں دیا گیا خصوصی جہاز اور پروٹوکول واپس لینا پڑا اور اس وقت انکی اھلیہ محترمہ نے سعودی عرب کے خلاف ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا اور یہ کوئی پہلا الزام نہیں عمران خان کے رفقاء حسب ھدایت اس طرح کے الزامات لگاتے رھے ھیں امریکی مداخلت اور سعودی مداخلت کے الزامات وہ پہلے بھی لگاتے رھے ھیں اور بعد میں معافیاں بھی مانگتے ھیں لیکن موجودہ الزام اس لحاظ سے زیادہ سنگین اور خطرناک ھےکہ اس خاتون نے یہ الزام لگایا کہ وہ سعودی عرب میں شرعی قوانین ختم کر رھے ھیں اور یہ عمران خان شریعت کے بڑے علمبردار ھیں انکو یہاں کیوں لائے ھو۔
جنرل باجوہ اور دیگر متعلقہ افراد نے اسکی فوری تردید بھی کی ھے لیکن تحریک انصاف کی قیادت پر کسی کی تردید یا کسی واقعے کا خلاف واقع ھونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔عمران خان کا ننگے پاؤں مدینہ جانا بھی ایک ڈرامے اور مکاری سے کم نہیں۔ وہ ھر کام میں ایسی جدت اور فتنہ نکالنے کا موجد ھے جسکا اس سے پہلے کہیں کوئی وجود نہیں ھوتا اسی طرح کے ڈرامے وہ ریاست مدینہ اور اللہ معاف کرے ایاک نعبدو و ایاک نستعین کے نعرے دیکر کر چکا ھے اور لگتا یہی ھے کہ یہ سب کچھ اسے اسی پیرنی نے سکھایا اور پڑھایا ھے جو اسے یہ باور کرانا چاھتی ھے کہ سعودی حکمران تو ملک میں شرعی قوانین ختم کر رھے ھیں اور عمران خان ھی دنیا بھر میں شرعی قوانین نافذ کرنے کی جدو جہد کر رھا ھے۔ملک کی سلامتی تو کبھی انکی ترجیح اول تو رھی ھی نہیں ھے اپنی آزادی اور رھائی پر ھی لات مارتے ھوئے اپنی جماعت اور چاھنے والوں کی تمام کوششیں اکارت کردیں۔ عمران خان کو کسی دشمن کی کیا ضرورت پڑی ھے انہیں اپنی رفیقہ حیات ھی کافی ھیں جنہوں نے انکی تمام شفافیت ایمان داری اور دیانت داری کے دعووں کی قلعی اس وقت کھول دی تھی جب وہ توشہ خانہ کی اشیاء کے کاروبار میں ملوث ھو گئیں تھیں اور اپنی فرنٹ ویمین فرح گوگی کے زریعے کاروبار چلا رھی تھیں۔عمران خان اسوقت جیل میں جو پا بند سلاسل ھیں اس میں زیادہ کردار و مشاورت انکی انہی رفیقہ حیات ھی کا ھے خواہ وہ توشہ خانہ ھو، القادر ٹرسٹ ھو یا دیگر تمام مشورے جو اسے وقتاً فوقتاً دیتی رھی ھیں۔ عمران خان خان گنگا گئے تو گنگا رام جمنا گئے تو جمنا داس بننے کے دعوے دار رھتے ھیں جہاں جاتے ھیں یہ وھاں ھی یہ دعوے کرتے ھیں کہ میں تو ایسا ھی نظام پاکستان می لانا چاھتا ھوں۔ انکے ایک وزیر نے دنیا میں PIA کے پائلٹوں کو گراونڈ کروا دیا اور پوری ائیر لائین کو زمین بوس کردیا۔
عمران خان کی رھائی کے لئے جتنی بھی مقامی قومی اور بین الاقوامی کوششیں ھو رھی تھیں وہ کبھی بھی کامیابی سے ھم کنار نہیں ھو سکتیں جب تک بشریٰ بی بی جیسی مشیر بے تدبیر اور تعویز و “وظیفہ” گزیر اھلیہ جنہوں نے نہ صرف اپنا چلتا بستا ھنستا کھیلتا گھر برباد کیا بلکہ 24 کروڑ پاکستانیوں کا گھر داؤ پر لگا دیا۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات تو ھمیشہ سے رھتے ھیں بلکہ عقائد کے اختلافات پر بھی سمجھوتے ھو جاتے ھیں پاکستان میں خاتون کی حکمرانی پر مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے مابین بڑے شدید اختلافات رھے ھیں لیکں جب ایوب خان اور فاطمہ جناح میں مقابلہ کی صورت آئی تو مذھبی جماعتوں سمیت کم و بیش سب جماعتوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا جب ملک میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی بڑی نظریاتی خلیج حائل تھی اس وقت بھی سیاستدان مل بیٹھتے رھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان کس قدر خلیج حائل رھی لیکن ملکی مفاد میں دونوں پارٹیوں و دیگر نے چارٹر آف ڈیمانڈ پر دستخط کئے۔
پاکستان کو اس وقت جس دھشت گردی، فتنہ الخوارج، ٹی ٹی پی اور دیگر بیرونی سازشوں کا سامنا ھے اس سے بڑھ کر اندرونی “فتنہ” کا سامنا ھے جو قومی اداروں،عسکری اداروں سمیت اپنے اقتدار کے لئے پاکستان کی سلامتی پر حملہ آور
ھونے کا کوئی موقع ھاتھ سے نہیں جانے دیتا۔اس کی ھر احتجاجی کال آخری،کفن بند اور قبر کھود ھوتی ھے جو 2014 سے لیکر آج تک کبھی بھی کامیاب نہیں ھوسکی اب اسکے اپنے ساتھی بھی اس صورت حال سے پریشان ھیں لیکن پھر بھی “اب کے مار کے دیکھ بھلا” کی طرح اعلان ھوتے ھیں یہ 24 نومبر بھی گزر جائے گی اور “کفن بردار” یہ کہتے ھوئے کف افسوس ملتے نظر آئیں گے
میں وہ سیاہ بخت ھوں ۔۔
کھولی دکان کفن کی تو لوگوں نے مرنا چھوڑ دیا
Load/Hide Comments