کتاب “گرم پانیوں کی تلاش ” (تصنیف: سید سلیم گردیزی)..تبصرہ: لیاقت بلوچ (نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان)


سید سلیم گردیزی ایک  درویش صف بیوروکریٹ ہونے کیساتھ ساتھ  مجاہدانہ اوصاف کے حامل لکھاری اور مصنف بھی ہیں۔ کشمیری  ہونے کے ناطے مقبوضہ جموں و کشمیر  میں  جاری بھارتی ظلم و ستم کے بالواسطہ متاثرین میں سے   بھی ہیں   کہ کنٹرول لائن کے اُس پار سے آزاد کشمیر کے باسیوں پر بلااشتعال بھارتی فوج کی  گولہ باری جاری  رہتی  ہے،  اور  مقبوضہ کشمیر کے  عوام  پر بھارتی فوج کی سفاکیت اور ظلم و ستم  کے چشم دید گواہ بھی ہیں کہ مقبوضہ وادی  میں خود جاکر وہاں کے  حالات کا مشاہدہ کرچکے  ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے آنکھوں دیکھے حال پر مشتمل اُن کی کتاب “میں نے کشمیر جلتے دیکھا” بھی قبل ازیں منظرِ عام پر آچکی ہے جو جنت نظیر وادی میں بھارتی  فوج کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف روا رکھے گئے  ظلم و ستم کے  چشم دید  واقعات  پر مبنی  اُن کی  ایک اور  معرکۃ الآراء کاوش ہے۔ سید سلیم گردیزی کی زیرِ نظر کتاب “گرم  پانیوں کی تلاش ” دراصل  70 کی دہائی میں سابق سوویت یونین کی  افغانستان پر جارحیت کے پسِ منظر  اور اُس سے جڑے حالات و واقعات، سوویت جارحیت کے بعد افغان جنگ میں شمولیت کا پاکستان کا فیصلہ اور اُس کے نتائج پر مبنی ایک مستند تاریخی دستاویز ہے  ، جس میں دس سالہ سوویت-افغان جنگ  اور اُس کے پسِ منظر و پیشِ منظر سمیت نائن الیون کو جواز بناکر امریکہ کا نیٹواتحادیوں کیساتھ افغانستان پر جارحیت اور  اس جنگ کے  2020ء تک کے واقعات کا   نہایت عرق ریزی کیساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔

فاضل مصنف نے اس کتاب میں علامہ اقبالؒ اور افغانستان کے  امیر امان اللہ کے تعلق کا حوالہ بھی  دیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے مجموعے ’’پیامِ مشرق‘‘ کو افغانستان کے والی  امیر  امان اللہ کے نام سے منسوب  کیا۔ غازی امان اللہ  کی  1919ءمیں اُس زمانے کی سپرپاور برطانیہ کے خلاف  زبردست کامیابیوں  پر وہ  پوری اسلامی دنیا کا قومی ہیرو بن گیا اور ملت اسلامیہ نے اس کی ذات سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیں۔ علامہ اقبالؒ بھی اس کے جذبہ جہاد اور ولولہ ایمانی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اُسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی حریتِ فکر اور سیاسی و سماجی سربلندی کی علامت سمجھتے تھے۔ اس پسِ منظر میں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام کا انتساب امیر امان اللہ والی افغانستان کے نام کیا۔ اس کتاب کے تمہیدی اشعار میں علامہ اقبال نے انہیں بہت خراجِ تحسین پیش کیا اور خلوص و محبت سے لبریز نصیحتیں کیں۔ ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے علامہ اقبالؒ سے سوال کیا کہ آپ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کا انتساب امان اللہ خان کے نام کیوں کیا تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ میں اپنی اس کتاب کو کسی آزاد مسلمان کے نام کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں امیر امان اللہ  خان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نہیں تھا۔  تاہم  امیر   امان اللہ خان ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔

فاضل مصنف نے برطانوی سامراج کے خلاف امیر امان اللہ خان کی پیش قدمی رُک جانے اور بعد ازاں اُن کا  افغانستان کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امیر امان اللہ خان نے  پہلے پہل تو برطانوی سامراج کے خلاف  “پان اسلام ازم” کا نعرہ لگاتے ہوئے پنجہ آزمائی شروع کی تاہم بعد ازاں جب وہ  تاجِ برطانیہ سے افغانستان کو ایک آزاد  اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگئے  تو 1927ء میں اپنی ملکہ ثریا کے ہمراہ ہندوستان، برطانیہ، مصر، اٹلی، فرانس ، جرمنی ، روس اور ترکی کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران مغربی تہذیب کی چکاچوند سے اُس کی آنکھیں خیرہ   ہوگئیں اور اس نے واپسی پر افغانستان کو بھی مغربی تہذیب میں رنگنے کا پروگرام ترتیب دے  دیا۔ اس نے لویہ جرگہ طلب کیا اور افغان رؤسا کو داڑھیاں منڈوانے ، کوٹ پتلون اور ہیٹ پہننے نیز افغان لباس اور مشرقی طور اطوار ترک کرکے مغربی تہذیب  کے رنگ ڈھنگ اختیار کرنے کا حکم دیا تو اُس  کے خلاف بغاوت ہو گئی اور باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوگیا جس کی قیادت برطانوی سامراج کے خلاف جنگ میں امیر امان اللہ  کا ساتھ دینے والے اُس کے دیرینہ ساتھی حاجی صاحب ترنگزئی وغیرہ کررہے تھے۔ اس دوران افغانستان کے علاقے “کوہِ دامان” سے  حبیب اللہ نامی ایک تاجک، جسے بچہ سقہ کے نام سے جانا جاتا تھا، اُٹھا  اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کی اُفق پر ایسا چھاگیا کہ امیر  امان اللہ فرار ہوکر اٹلی میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوا،  جہاں  اُس نے باقی ماندہ زندگی گزاری اور  1960ء میں وفات پائی۔

بچہ سقہ نو ماہ تک افغانستان کا حکمران رہا۔ اس کا سارا دور بدانتظامی، انارکی اور افراتفری کی کیفیت میں گزرا۔ بچہ سقہ چونکہ ایک پانی ڈھونے والے مزدور کا بیٹا تھا،  اس سے روس اور افغان کمیونسٹ بھی نالاں تھے اور تاجِ برطانیہ کا بھی  اُس  کے ساتھ طرزِ عمل دوہرے معیارات کا حامل رہا ، نیز  اُس کے پاس  امورِ مملکت چلانے کے لیے کوئی  تجربہ اور ٹیم  بھی نہیں تھی۔ لہٰذا دریں  حالات امیر امان اللہ کے ایک ساتھی، فرانس میں افغانستان کے  سفیر نادر شاہ  جِلاوطنی ترک کرکے افغانستان کے لیے روانہ ہوگئے ۔ وہ  پہلے پیرس سے لاہور آئے،  علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی اور اُنہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں نادر شاہ  شمالی وزیرستان کے علاقے علی خیل روانہ ہو گیا۔ یہاں پر اُس نے وزیر اور محسود قبائل کے ساتھ مل کر ایک لشکر تشکیل دیا اور کابل پر حملہ کردیا۔ علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی مدد کے لئے ایک فنڈ بنایا اور کچھ ہی عرصے کے بعد نادر شاہ نے حبیب اللہ (بچہ سقہ) کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر لیا۔  کچھ سال بعد علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا دورہ کیا تو وہاں ملا شور بازار اور حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ حاجی صاحب کا تعلق شب قدر کے علاقے سے تھا۔ اُنہوں نے 1919ء کی جنگ میں امان اللہ خان کا ساتھ دیا تھا،اب وہ برصغیر کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور نادر شاہ کی مدد سے مزاحمت کی تیاری کر رہے تھے۔ علامہ اقبالؒ نے امان اللہ خان اور نادر شاہ جیسے بادشاہوں کی عزت افزائی اُن کی حریت پسندی کی وجہ سے کی۔ اقبالؒ کو افغانوں سے بہت محبت تھی کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ افغان کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اسی لئے اقبالؒ نے کہا

افغان باقی، کہسار باقی

الحکم للہ،    الملک للہ

یعنی تاریخی عمل اور تاریخی جدل میں صرف افغان سرخرو ہوں گے۔ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں صرف کابل، غزنی اور قندھار کا ذکر نہیں ملتا بلکہ احمد شاہ ابدالی اور خوشحال خان خٹک کے ساتھ باقاعدہ اظہارِ محبت ملتا ہے۔ خوشحال خان خٹک ایک جنگجو شاعر تھے جنہوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خلاف مزاحمت کی۔ اقبالؒ نے اورنگ زیب کے خلاف تلوار اٹھانے والے خوشحال خان خٹک کے بارے میں کہا

؎         قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ستاروں پہ کمند ڈالنے والے جوانوں سے اقبالؒ کی محبت بلاجواز نہ تھی۔ اقبالؒ کی زندگی میں افغانوں نے سلطنت برطانیہ کو شکست دی اور ہماری زندگی میں افغانوں نے سوویت یونین اور امریکہ  و نیٹو فورسز  کو شکست دی۔

 1979ء میں دریائے آمو عبور کرکے دس سال تک افغانستان کو  تاخت و تاراج کرنے والی سوویت افواج بالآخر 1989ء میں بدترین شکست کے بعد افغانستان سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئیں۔ اس حوالے سے فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ  افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت دراصل گرم پانیوں تک رسائی پر مبنی  اُس کی پانچ سو سالہ پیش قدمی کا تسلسل تھا۔ اکتوبر 1917ء میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد وہ اپنے اشتراکی نظریات کو سُرخ انقلاب کا روپ دے کر بحر ہند کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے بے تاب تھا۔ لیکن اُس کے ان توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں اسلامی نظریاتی ریاست پاکستان حائل تھی، لہٰذا سوویت یونین اور بھارت نے پاکستان کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آنے والے اناج کی طرح پیسنے کی حکمتِ عملی اپنانے کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد کے تحت پہلے مشرقی پاکستان کو مُکتی باہنی جیسی دہشت گرد بھارتی تنظیم کے ذریعے جسدِ ملی سے علیحدہ کرکے بنگلہ دیش بنوایا اور اس کے بعد شمالی مغربی سرحدی علاقوں  (خیبرپختونخوا)  اور بلوچستان کو بالترتیب پختونستان اور عظیم تر بلوچستان کے سلوگنز کے تحت پاکستان سے علیحدہ کرنے کا خواب دیکھنے لگے اور اپنی ان معاندانہ سرگرمیوں کے لیے ظاہر شاہ اور داؤد جیسے  ماسکو نواز اور دہلی نواز  افغان حکمرانوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اس طرح افغان سرزمین پاکستان کے خلاف سوویت اور بھارتی گٹھ جوڑ پر مشتمل سازشوں کا مرکز بن گئی ۔  یہ وہ حالات تھے جس میں پاکستان نے اپنی سلامتی او ربقاء کی حکمتِ عملی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے  روسی جارحیت کے خلاف تحریک مزاحمت پر مبنی افغان جہاد کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔   پاکستانی قوم نے  افغان جہاد  میں حصہ لینے کا درست اور بروقت فیصلہ کرکے  دراصل اپنی ہی  بقاء کی جنگ لڑی ، وگرنہ  برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد خاکمِ بدہن آج ہم   سُرخ سامراج  کی کالونی کہلاتے اور  خدانخواستہ سوویت یونین کو افغانستان میں   کامیابی مل جاتی تو پھر اُس کا اگلا ہدف پاکستان ہی تھا۔

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد  وسطی ایشیائی ریاستوں کی آزادی اور سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد وجود میں آنے والے روس کیساتھ اب پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے بھی دوستانہ تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ 07  اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ پر اسرائیلی صیہونی جارحیت اور فلسطینیوں کی بدترین نسل کشی کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات کے تناظر میں خطے میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ سعودی عرب، ایران،  پاکستان،  ترکیہ،  چائنہ اور روس پر مشتمل نیا بلاک تشکیل پارہا ہے. معیشت پر امریکی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ڈالر کے بجائے مقامی کرنسیوں میں سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں. ایسے میں پاکستان کو افعانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی خطے اور مسلم اُمہ  کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

سید سلیم گردیزی آگے جاکر لکھتے  ہیں کہ افغانستان کے حوالہ سے پاکستان کی مستقل پالیسی تھی کہ روسی فوجوں کے انخلاء کو افغانستان میں تمام فریقین خصوصاً مجاہدین افغانستان، جوکہ مسئلے کا اصل فریق تھے، کے لیے قابلِ قبول عبوری حکومت کے قیام سے منسلک کیا جائے، تاکہ روسی انخلاء کے بعد افغانستان میں کوئی خلاء پیدا نہ ہو۔  افغان معاشرے میں شیعہ سُنی کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تقسیم اور افغان، ہزارہ، ازبک، تاک اور ترکمان بنیاد پر نسلی تقسیم بھی موجود تھی اور پشتو، فارسی وغیرہ کی لسانی تفریق بھی۔ اس طرح کے ایک منقسم معاشرے کو اسلام اور جہاد کے آفاقی تصور اور مشترکہ دشمن نے آپس میں جوڑے رکھا تھا۔ اب جبکہ کمیونزم کا بُت پاش پاش ہورہا تھا تو شکست خوردہ افغان کمیونسٹ ان مجاہدین میں نسلی عصبیتیں اُبھار کر ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔  امریکہ، روس اور دیگر عالمی طاقتیں بھی یہی چاہتی تھیں کہ افغان جہاد کی فتح کا پھل پاکستان اور مجاہدین کی جھولی میں نہ گرے۔ مغربی طاقتیں جس قدر روس س خائف تھیں، اُس سے زیادہ مسلم مجاہدین کی پاکستان دوست حکومت کے امکان سے لرزہ براندام تھیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اُس وقت کے  وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو، صدر ضیاء الحق اور افغان جہاد کے حامی حلقوں کی تمام تر کوششوں کے علی الرغم 14 اپریل 1988ء کو رُسوائے زمانہ جنیوا معاہدہ پر دستخط کروالیے۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے پہلی مرتبہ افغانستان میں روس کی کٹھ پُتلی نجیب حکومت کو تسلیم کیا، جبکہ دوسری طرف مجاہدینِ افغانستان، جوکہ مسئلے کے اصل فریق تھے، کے لیے معاہدے کے متن میں “دہشت گرد”، “باغی” اور “کرائے کے قاتل” جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔

بہرحال مجاہدین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونے  والے روس کو جنیوا معاہدے  کے نتیجے میں face saving  مل چکی تھی، جس کی آڑ  میں 15 مئی 1988ء کو 12 ہزار فوجیوں پر مشتمل اُس کا پہلا دستہ افغانستان سے واپسی کے لیے روانہ ہوا اور 15 فروری 1989ء کو اس کا آخری دستہ بھی دریائے آمو عبور کرگیا۔ آخری روسی فوجی کمانڈر جس نے شکست کے احساس سے بوجھل دل کیساتھ دریائے آمو عبور کیا، وہ روسی فوج کا کمانڈر  جنرل گراموف تھا، جس نے آمو پُل سے گزرتے ہوئے دریا میں کُودکر خودکشی کی کوشش بھی کی، تاہم اُس  کے ساتھیوں نے اُسے بچالیا۔ تجزیہ کاروں نے اُسے ڈوبتے جہاز کا زندہ بچ جانے والا کپتان قرار دیا۔ روس کی افغانستان سے واپسی نے روسی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو ششدر کردیا۔

افغانستان سے سوویت یونین   کے مکمل انخلاء  کے ساتھ ہی عالمی اور علاقائی سازشوں کے تانے بانے بڑی  مہارت اور چابکدستی سے بُنے جانے لگے، جن کا مقصد  مجاہدین اور افغان عوام کو فتح کے ثمرات سے محروم کرنا تھا۔ جنیوا معاہدے کی شکل میں کھولے گئے دروازے میں رہی سہی کثر سانحہ بہاولپور (جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثہ)  سے  پوری ہوچکی ۔  امریکہ  کی انہی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں افغانستان میں کوئی باقاعدہ مستحکم حکومت قائم نہیں ہوسکی۔ پاکستان  کی کوششوں سے  انجینئر گلبدین حکمت یار کچھ عرصہ کے لیے وزیراعظم اور برہان الدین ربانی صدر رہے لیکن اندرونی  و بیرونی سازشوں کے نتیجے میں افغانستان خانہ جنگی کا ہی شکار رہا، یہاں تک کہ قندہار سے ملا عمر کی سربراہی میں طالبان اُٹھے اور آندھی طوفان کی طرح تمام متحارب گروپوں کو شکست دیتے ہوئے  کچھ ہی عرصہ میں پورے افغانستان پر چھاگئے اور حکومت قائم کرلی۔ امریکہ اُنہیں بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، جو مبینہ طور پر تیل کی تجارت سے وابستہ تھے، لیکن جب انہیں یقین ہوگیا کہ طالبان کسی صورت اب اُن سے تعاون کے لیے تیار نہیں ہورہے تو انہوں نے 11 ستمبر 2001ء  کو  نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹوئن ٹاور پر حملوں (نائن الیون)  اور بعض دیگر دہشت گرد حملوں کا الزام  اُسامہ بن لادن اور القاعدہ پر تھوپتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اُسامہ بن لادن قبل ازیں جہادِ افغانستان سے وابستہ رہے، کچھ عرصہ کے لیے سوڈان چلے گئے تھے  اور بعد ازاں طالبان کے امیر ملا عمر کے مہمان کی حیثیت سے افغانستان  ہیں مقیم تھے۔ اس دفعہ جنرل پرویز مشرف پاکستان میں اقتدار پر قابض تھے، جس نے امریکی وزیر دفاع جنرل کولن پاول کی ایک کال کے آگے سرنڈر کرتے ہوئے افغانستان کے خلاف نام نہاد امریکی وار آن ٹیرر کا فرنٹ لائن اتحادی بننے لیے آمادگی ظاہر کردی۔  اُس کے بعد نیٹو اتحادیوں اور پاکستان کی سہولت کاری کیساتھ امریکہ نے 20 سال تک  افغانستان  میں خون کی جو ہولی کھیلی اور پاکستان کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا  اُس کی تفصیلات سے ماضی قریب کی تاریخ  کے  اوراق بھرے پڑے ہیں ، اور اس فرنٹ لائن اتحادی حیثیت کا خمیازہ آج بھی پاکستانی عوام اور سکیورٹی ادارے مسلسل دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

بہرحال 2001ء سے 2021ء تک اس  نام نہاد ‘وار آن ٹیرر’  پر 2  ہزار ارب امریکی  ڈالر  خرچ ،   لاکھوں  افغان عوام کو قتل  اور  اپنے 2 ہزار 448 فوجی مرواکر  امریکہ  اپنے پیشروؤں کی طرح  ذلت آمیز شکست کے بعد چلتا بنا۔  تقریبا 4 ہزار افغان کنٹریکٹرز کو بھی اس طویل جنگ کے دوران  جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس کے علاوہ 66 ہزار افغان ملٹری اور پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔جبکہ  ان اخراجات میں امریکی اور افغان فوجیوں کے علاج اور تدفین پر خرچ ہونے والی رقم شامل نہیں ہے۔ 20 سالہ افغان جنگ میں  امریکا کی جانب سے خرچ کی گئی رقم بل گیٹس، ایلون  مِسک  اور دیگر 30 امریکی امیر ترین افراد کی کُل دولت سے بھی زیادہ ہے۔  امریکہ و  نیٹو فورسز کی بدترین شکست کے بعد افغان عوام ایک بار پھر  فاتح بن کر اُبھرے۔

افغانستان پر سوویت جارحیت کے کچھ عرصہ بعد جب امریکہ کو یقین ہوگیا کہ جنگ کا پلڑا افغان عوام کے حق میں جارہا ہے، تو وہ طالبان کی مدد کو آپہنچا، بعد ازاں انہیں دہشت گرد قرار د کر خود افغانستان کے خلاف جارحیت پر اتر آیا۔ لیکن بالآخر 20 سالہ جنگ میں شرمناک شکست کے بعد امریکہ انہی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوا، کیونکہ اُسے افغانستان سے ‘باعزت واپسی’ کا راستہ چاہئے تھا۔ دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں اُسے ‘باعزت واپسی’ کا راستہ تو مل گیا لیکن اب وہ اپنی اس شرمناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے پاک-افغان بارڈر اور اس سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں بدامنی کو جواز بناکر دونوں برادر اسلامی اور پڑوسی ممالک کے درمیان بداعتمادی پیدا کرکے آپس میں دست و گریباں کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔  امریکہ  و نیٹو افواج کے خلاف افغان عوام کی شاندار فتح کے بعد پوری اُمتِ  مسلمہ  بالخصوص پاکستان کی پہلی ترجیح تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ افغان طالبان کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کیساتھ دیرینہ برادرانہ تعلقات قائم کیے جاتے اور اُن کی حکومت کو بلاتاخیر تسلیم کیا جاتا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان امریکی دباؤ کے تحت اب تک افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے، جبکہ چین، روس اور بھارت جیسے خطے کے بڑے ممالک افغان حکومت کو تسلیم کرکے ان سے سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں۔

پاکستان کا استحکام افغانستان کے  استحکام سے وابستہ ہے، افغانستان میں فساد کے براہِ راست اثرات  پاکستان پر پڑنا ایک فطری امر ہے۔ افغانستان ہمارا برادر اسلامی پڑوسی ملک ہے ،  دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں ۔    پاکستان کا مفاد یہی  ہے کہ برادر اسلامی ملک افغانستان کیساتھ دوستانہ روابط  پر مبنی  تعلقات استوار کرکے   پاکستان کی مغربی سرحدوں کو محفوظ اور افغانستان میں بھارتی اثر و رُسوخ کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ افغانستان سے پاکستان کے اندر دراندازی کا معاملہ ہو یا  ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کارروائیاں، حکمت اور دانش مندی کیساتھ  افغان حکومت سے مذاکرات کے ذریعے یہ  مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر نئے سرے سے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

 ہمیں علامہ اقبالؒ کی افغانوں سے محبت کا بھرم قائم رکھنا ہو گا۔ افغانستان دنیا کی 3 سپرپاورز کی شان و شوکت کا قبرستان بن چکا، لیکن افغانستان کی پہچان صرف قبرستان کی  نہیں ہے۔ اقبالؒ نے افغانستان کو سپرپاور زکے قبرستان کے بجائے ایشیا کا دل قرار دیا اور یہ وہ پہچان ہے جسے حقیقت بنا کر ہم صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

 ؎      آسیا یک پیکر آب و گِل است

ملت ِ افغاں در آں پیکر ِ دل است

از     فساد  او  فسادِ آسیا

در کشاد او کشادِ آسیا

(ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کا نام افغان قوم ہے۔ افغانوں میں فساد کا مطلب ایشیا میں فساد ہے اور افغانوں کی ترقی کا مطلب ایشیا کی ترقی ہے)۔

سید سلیم گردیزی کی کتاب  “گرم پانیوں کی تلاش”   تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین، بین الاقوامی تعلقات  پر گہری نظر رکھنے والے مفکرین،  دفاعی ماہرین، دانشور اور طلباء و طالبات کے لیے یکساں طور پر  مفید اور معلومات افزاء  کتاب  ہے۔   طبع اول کو بےحد پذیرائی ملی، یہی وجہ ہے کہ سال 2020ء میں طبع دوم   بھی چھپ کر آگئی۔ اُمید ہے کہ تشنگانِ علم اور عوام الناس میں اِسی طرح   قبولیتِ عام اور پذیرائی حاصل رہے گی۔