وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس منعقدہ اسلام آباد میں ملک کی سیاسی صورت حال اور بڑھتی ھوئی دھشت گردی کے سدباب سمیت جملہ امور سلامتی و استحکام پر تفصیلی غور و خوض ھوا وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بڑے درد مندانہ انداز میں ملک کو درپیش چیلنجوں اور سیاسی و معاشی استحکام پر اظہار خیال اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ جو بھی پاکستان کی سلامتی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالے گا اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قومی اتحاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر پاکستانی اس جنگ میں شامل ھے چاہے وہ وردی میں ہو یا نہ ہو۔ جنرل منیر نے زور دیکر کہا کہ پاکستان کا آئین ملک کے ہر فرد پر اندرونی اور بیرونی سلامتی کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ انہوں نے سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جان کی قیمت پر بھی ملک کی سلامتی اور استحکام کے چیلنجوں سے مسلسل نمٹ رہے ہیں۔ اجلاس میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان کوآرڈینیشن کو بہتر بنانے، انٹیلی جنس شیئرنگ کو بڑھانے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ نکات دہشت گردی سے نمٹنے اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے جنرل سید عاصم منیر کے عزم کو اجاگر کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس دھشت گردی کا تقریباً تین دہائیوں سے شدت سے سامنا ہے اور اس میں بھارت کے ھاتھ کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اگرچہ پاکستان کو بے شمار کہے ان کہے چیلنجوں،سازشوں اور پڑوس سے ریشہ دوانیوں کا سامنا رھتا ھے اور ھمیں دوستی اور دشمنی دونوں کی قیمت ادا کرنا پڑتی ھے۔
پاکستان میں دھشت گردی کی شروعات افغانستان میں سوویت یونین کی حملے کے بعد ہوئی۔
روس نے افغانستان پر دسمبر 1979 میں حملہ کیا، جو 9 سال تک جاری رہا اور فروری 1989 میں ختم ہوا اس دوران پاکستان نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا اور ہزاروں مجاہدین روس کے خلاف لڑنے گئے۔ پاکستان کو جنگ کی وجہ سے اور دھشت گردی کی وجہ سے بھی نقصان ہوا۔اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر بہت منفی اثر پڑا۔ پاکستان میں دھشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔جنگ کی وجہ سے پاکستان کی سیاست پر بھی منفی اثر پڑا۔جنگ کی وجہ سے پاکستان میں دھشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا.
شت گردی کی وجہ سے پاکستان میں امن و سلامتی کا خاتمہ ہوا. یہ نقصانات پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کا باعث بنے اور اس کے بعد سے پاکستان کو دھشت گردی کے خلاف لڑائی لڑنی پڑی پاکستان نے اس دھشت گردی کی وجہ سے بے پناہ نقصان برداشت کیا ہے۔2001 سے 2024 تک پاکستان کی افواج میں تقریباً 12,000 سے زائد افراد شہید ہوئے.
– 30,000 سے زائد افراد زخمی ہوئے.
– 2001 سے 2024 تک پاکستان میں ہونے والے دھشت گردی کے حملوں میں 0,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے. – 3.5 لاکھ سے زائد افراد زخمی ہوئے.– پاکستان کی معیشت کو 180 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا.پاکستان نے تمام تر سیاسی،معاشی،دفاعی اور شہریوں کی قیمتی جانوں و جائیدادوں نقصانات کے باوجود دھشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی جوانمردی اور بہادری سے کامیابیاں حاصل کیں.اس سلسلے میں پاکستان افواج کے متعدد آپریشنز کا ذکر عسکری ریکارڈ میں دستیاب ھے جن میں
اوپریشن مدد، ضرب عضب (2014)، آپریشن رد الفساد (2017)، آپریشن رہان (اوپریشن رد النجات 2019)– آپریشن زلزلہ (2022)– آپریشن طوفان (2023)– آپریشن شبینہ (2024) لانچ کئے گئے
پاکستان دھشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے.جنرل عاصم منیر جب سے پاکستان کی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف ہیں، (29 نومبر 2022 سے اس عہدے پر فائز ہیں)۔انہوں نے نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ پاکستان آرمی کی روایات کو نئی مہمیز دی۔جنرل سید عاصم منیر نے نہ صرف عسکری محاذوں پاک افواج کی صلاحیتوں کو ایک نیا رخ دیا وھاں آپ نے فکری اور نظریاتی محاذوں پر بھی تمام مکاتب فکر کو مکالمے اور استدلال سے بات کرنے کا موقع فراھم کیا اس سلسلے میں قومی ورکشاپس کا انعقاد ایک مثبت اور نتائج انگیز پیش رفت قرار دی جاسکتی ھے۔جنرل عاصم منیر کے بطور چیف آف آرمی سٹاف عرصہ تعیناتی کے دوران کئے گئے اوپریشنز کا اجمالی ذکر کرنا مناسب ھوگا۔1. اوپریشن ضرب آہنجو فروری 2023 میں شروع کیا گیااس کا مقصد: دھشت گردوں کے اڈے تباہ کرنا اور دھشت گردوں کو پکڑنایہ اوپریشن بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں شروع کیا گیا۔2. اوپریشن طوفان جو مئی 2023 میں شروع ھوا اس کا مقصد دھشت گردوں کے اڈے تباہ کرنا اور دھشت گردوں کو پکڑنا یہ اوپریشن بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شروع کیا گیا۔
3. اوپریشن شبینہیہ اگست 2023 میں شروع کیا گیا اس کا مقصد دھشت گردوں کے اڈے تباہ کرنا اور دھشت گردوں کو پکڑنا یہ اوپریشن شمالی وزیرستان میں کیا گیایہ اور دیگر اوپریشنز جو مختلف ناموں سے موسوم ھوتے رھتے ھیں پاکستان کی فوج کے دھشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں۔ ان اوپریشنز کے نتیجے میں پاکستان میں دھشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن جس شدت سے اوپریشن شروع ھوتے ھیں دشمنوں کی کارروائیوں میں بھی اس شدت سے اضافہ جاری ھے۔اگر قوم متحد اور یکجہتی کے ساتھ ان چیلنجوں سے نبرد آزما رھے تو مقابلہ مشکل نہیں ھے پاکستان کی افواج اور دیگر فورسز میں یہ صلاحیت اور جذبہ بدرجہا اتم موجود ھے لیکن پاکستان کو جن معاشی مشکلات اور اندرونی سازشوں اور عدم استحکام کا سیاسی میدان میں سامنا ھے اس سے توانائیوں میں تقسیم سے مشکلات بھی درپیش ھیں تحریک انصاف نے ملکی سلامتی کو درپیش خطرات میں کبھی ملکی وقار اور سالمیت کا خیال نہیں رکھا 2014 کے دھرنوں سے لیکر آج تک کوئی موقع ھاتھ سے نہیں جانے دیا یہاں تک کہ 9 مئی 2023 کو ملکی سلامتی کے اداروں پر بھی چڑھ دوڑے،الحمدللہ اسکے مقابلے کے لئے بھی پاکستان افواج اور حکومت ایک صفحہ پر ھیں جنرل عاصم منیر اس معاملے میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں رھے ایک پروفیشنل چیف آف آرمی سٹاف کی طرح وزیراعظم کے ممد و معاون کا کردار ادا کر رھے ھیں خواہ SIFC (سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) ھو یا قومی اپیکس کمیٹی حکومت اور عسکری اداروں کے درمیان ایک مکمل ھم آہنگی اور یکجہتی موجود ھے۔اس اھم اجلاس کے ممکنہ نتائج آئیندہ چند روز میں متوقع ھیں جو فتح و شکست سے ھٹ کر پاکستان کی سلامتی و استحکام میں دور رس نتائج کے حامل ھونگے ان شاءاللہ۔
Load/Hide Comments