اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی بی 44کوئٹہ 3میں الیکشن ٹربیونل کی جانب سے 16پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کروانے کاحکم کالعدم قراردے دیا۔عدالت نے قراردیا ہے کہ الیکشن ٹربیونل کافیصلہ غیر قانونی ہے، الیکشن ٹربیونل کو کیس سننے کااختیار نہیں تھا۔ عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار عبیداللہ گورگیج کی جانب سے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے ان کی حلقہ میں کامیابی کوبرقراررکھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 3رکنی بینچ نے پی بی 44کوئٹہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبیداللہ گورگیج کی جانب سے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے حلقہ کے 16پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کروانے کے حکم کے خلاف نیشنل پارٹی کے امیدوار عطا محمد بنگلزئی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزارکی جانب سے سینئروکیل خواجہ حارث احمد پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے محمد مسعود خان پیش ہوئے۔
جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھاکہ یہ پہلے سنے گئے شہزاد شوکت کی طرح کا ہی کیس لگ رہا ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھاکہ 16پولنگ اسٹیشنز کامعاملہ ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فارم 45سے49تک تمام فارمزکے مطابق ہم جیتے ہوئے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ الزام کیا ہے، کتنے ووٹ بڑھے۔ خواجہ حارث کاکہناتھا کہ میرے 7125اورمیرے مخالف کے 6385ووٹ تھے۔
خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 184-3کا کیس نہیں۔ جسٹس عقیل احمد کاکہنا تھا کہ کیاسرکاری مئوقف ریکارڈ پرآیا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کسی نے بھی فارم 45جمع نہیں کروائے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ کیا فارم 45اورفارم47میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ مدعا علیہان نے جو دستاویزات جمع کروائیں وہ تصدیق شدہ نہیں، نوٹری پبلک سے دستاویزات تصدیق کروائی گئیں جو کہ درست نہیں، اوتھ کمشنر نے بیان حلفی کی تصدیق کرانا ہوتی ہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ اگر بیان حلفی قانونی طور درست نہیں توپھر درخواست ہی نہیں بنتی۔
جسٹس شاہد وحید کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ خواجہ حارث توآپ کو الیکشن ٹربیونل کے دروازے سے اندر ہی نہیں جانے دے رہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہان تھا کہ الیکشن کمیشن زبردست ریکارڈ رکھتاہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ چار چیزیں پوری نہیں توکیسے الیکشن ٹربیونل میں جائیں گے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میرااپنے بیان حلفی پرانحصار نہیں۔
اس پر جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ پھر توآپ کی درخواست قابل سماعت نہیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ آپ کی الیکشن پیٹیشن ہی وجود میں نہیں آرہی، پہلے بناکردکھائیں کہ الیکشن پیٹیشن کیسے بنی ہے، الیکشن ٹربیونل کاساراحکم بغیردائرہ اختیار کے ہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ درخواست گزارکاسارا مواد مکمل ٹیمپرنگ زدہ، فراڈ اورکرپشن پر مبنی ہے مگرمدعا علیہ پہلے اپنی درخواست کوثابت کریں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ہم درخواست کے حوالہ سے نہیں بلکہ بیان حلفی کے حوالہ سے بات کررہے ہیں۔
جسٹس شاہد وحید کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نقص کاکوئی جواب ہے کہ نہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ خواجہ صاحب سے بھی معصومانہ سوال پوچھا تھا مدعا علیہ کے وکیل سے بھی پوچھ لیتے ہیں، بغیر حلف کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، حلف پرتصدیق ضروری ہے، جھوٹا بیان حلفی دیں تو جھوٹی گواہی بن جاتی ہے۔
جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ الیکشن ٹربیونل کو تودرخواست کے قابل سماعت ہونے پر ہی اعتراض لگادینا چاہیئے تھا کہ بیان کسی صورت قابل قبول نہیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ یہ دودھاری تلواروالا معاملہ ہے کہیں بہت ساری چیزوں کو قبول کرکے درخواستوں کو منظور کیا گیا اور کہیں نظرانداز کرکے خارج کردیا گیا۔
جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ بیان حلفی کی تصدیق نہ ہونے کی بنیاد پر 2018کے انتخابات کے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بعد لاتعداداپیلیں خارج ہو گئی تھیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ کے پاس سوال کاجواب نہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ جو بیان حلفی لائے ہیں وہ ناقص ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھاکہ ہم زائد المعیاد کامعاملہ ختم کرکے واپس بھجوادیتے ہیں اورجو بھی 10یا20دن رہتے تھے وہیں سے شروع کرکے قانون کے مطابق دوبارہ بیان حلفی بنوالیں، یہ ایسانقص تونہیں جس پر قابونہیں پایا جاسکتا۔
جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ ہم درخواست منظور کرتے ہیں اور اگر مدعا علیہ تصدیق نہیں کرواتے تودرخواست خارج تصورہوگی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کامدعاعلیہ کے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم تو بیان حلفی کی بات کررہے ہیں، کیوں بچوں کی طرح ہمیں بتارہے ہیں، ایک نقص بھی ہوگاتودرخواست خارج ہوجائے گی۔
عدالت نے درخواست گزارعبیداللہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ غیر قانونی قراردے دیا۔ واضح رہے کہ پی پی پی امیدوارعبیداللہ حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے۔عبیداللہ نے 7125ووٹ حاصل کیئے تھے جبکہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مخالف امیدوار عطا محمد بنگلزئی نے 6385ووٹ حاصل کیئے تھے۔