ہم محدود آمدنی والوں کے بجلی اور گیس کے مسائل…نصرت جاوید


رواں مہینے کا آغاز ہوا تو میری بیوی نے یہ انکشاف کرکے مجھے چونکادیا کہ ہمارے پاس روزمرہّ کی ضروریات پر خرچ کے باوجود کچھ رقم بچ گئی ہے۔ جو رقم بچی وہ ہزاروں میں تھی مگر لاکھ روپے سے کم۔ سوال اٹھا کہ اسے مناسب انداز میں کیسے خرچ کیا جائے۔ 
ہم جیسے محدود آمدنی والے افراد روزمرہّ اخراجات سے بچ جانے والی رقم کو اس انداز میں خرچ کرنا چاہتے ہیں جو زندگی آسان بنانے میں مددگار ہو۔ اس تناظر میں غور ہوا تو خیال آیا کہ سردی شروع ہوتے ہی گیس کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بارہا ایسے بھی ہوا کہ کھانا تو جیسے تیسے ہلکی آنچ پر پک گیا۔ اسے روٹی کے ساتھ کھانے کے لئے مگر تندور سے روٹی یا نان خریدنا پڑے۔ دن میں کئی بار فقط اس وجہ سے چائے نہیں بن پاتی کیونکہ چولہے میں گیس نہیں۔
سردی شروع ہوتے ہی گیس کے حوالے سے درپیش مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے خیال آیا کہ بجلی سے چلنے والا چولہا تلاش کیا جائے۔ اس کی تلاش کو دل اس لئے بھی مچلاکیونکہ حکومت کی جانب سے دعویٰ ہورہا تھا کہ وہ سردیوں کے تین مہینوں میں بجلی کے اضافی یونٹ استعمال کرنے والوں کو فی یونٹ کے حساب سے رعایت فراہم کرے گی۔ اپنے گھر دو سال قبل سولر بھی لگوالیا تھا۔ اسے لگوانے کے بعد اگرچہ ہمہ وقت یہ دھڑکا بھی لگارہتا ہے کہ آئی ایم ایف کے دبا? پر حکومت ’’نیٹ میٹرنگ‘‘ والا نظام ختم کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ سے لاکھوں کے خرچ سے سولر لگوانے والے پچھتاوے میں مبتلا ہوجائیں گے۔ تھوڑی بحث کے بعد بالآخر فیصلہ ہوا کہ بجلی کا چولہا خرید ہی لیا جائے۔ اس سے کم از کم سردی کے مہینوں میں کھانا تو بآسانی پکتا رہے گا۔
کسی امر کے بارے میں فیصلہ ہوجائے تو میری بیوی اس کے اطلاق کے لئے محاورے والے گھوڑے پر سوار ہوجاتی ہے۔ بجلی کے چولہے کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ گاڑی لے کر موصوفہ اسلام آباد کے بلیوایریا میں بجلی سے استعمال ہونے والی اشیاء بیچنے والی چند دوکانوں پر روانہ ہوگئیں اور ایک چولہا خرید لائیں۔ جو چولہا خریدا گیا تھا وہ دیکھنے میں بہت دلنشین تھا۔ چمکتے سیاہ توے کی شکل تھی۔ اس کے اوپر لال رنگ کے دودائرے بنے ہوئے تھے۔ غالباََ کھانے کے برتن ان دائروں پر رکھنا مقصود تھا۔ چولہے کو ہم میاں بیوی ازخود نصب کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ بازار سے کاریگر بلوانا پڑا۔ وہ کاریگر آیا تو چولہے کو دیکھ کر حیران ہوا۔ اس نے ایسا چولہا پہلی بار دیکھا تھا۔ اپنے فون کے ذریعے اس نے چولہے کی تصویر لی۔ اس کا نام اور برانڈ بھی تلاش کرلیا۔ اسے چین کی کسی کمپنی نے بناکر پاکستان بھیجا تھا۔ چولہے سے متعلق تفصیلات جمع کرنے کے بعد کاریگر نے کہا کہ اسے ’’تحقیق‘‘ کے لئے چند گھنٹے درکار ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ اسے ایک دن دیا جائے تاکہ وہ مستند معلومات کے حصول کے بعد اس چولہے کو نصب کرسکے۔ ہم سے رخصت ہوجانے کے تقریباََ تین گھنٹے بعد مگر وہ ہمارے گھر لوٹ آیا۔ گھنٹی بجاکر مجھ سے ملاقات کی اور خبردار کرنے کے انداز میں مطلع کیا کہ جو چولہا خریداگیا ہے اسے چلائیں گے تو بجلی کے اتنے یونٹ خرچ ہوں گے جو چار ایئرکنڈیشنر بیک وقت چلاتے ہوئے خرچ ہوتے ہیں۔ قصہ مختصر ہمیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ گیس کی کمیابی سے نبردآزما ہونے کے لئے ہم چار ایئرکنڈیشنروں کے برابر بجلی خرچ کرنے والا چولہا نصب کروانے کو تیار ہیں یا نہیں۔
میں نے سوچنے کی مہلت مانگی۔ گزرے جمعہ کی سہ پہر یہ واقعہ ہوا تھا۔ پیر کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوپایا ہے کہ بجلی کا جو چولہا بیگم صاحبہ نے خرید لیا ہے اسے نصب کروایا جائے یا نہیں۔ گومگو کا عالم ہے۔ میں اگرچہ مصر ہوں کہ بجلی کا چولہا نصب کروانے میں کوئی حرج نہیں۔ اسے چلانے میں اگر واقعتا چار ایئرکنڈیشن چلانے کے برابر بجلی خرچ ہوتی ہے اور وہ سولر پینل نصب کروانے کے باوجود بجلی کے ماہانہ بل میں ہوشربا اضافے کا سبب بن جاتی ہے تو اس پر کھانا پکانے سے گریز اختیار کرلیں گے۔ کبھی کبھار چائے یا سنیک وغیرہ تیار کرنے کے لئے تو یقینا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جس معاملے کو آپ کے روبرو رکھا ہے وہ اکتادینے کی حد تک فروعی محسوس ہوسکتا ہے۔ بجلی کے اس چولہے کی بدولت جسے خریدنے کے باوجود نصب کرنے کی ہمت نہیں ہورہی میں بہت کچھ سوچنے کو مجبور ہوا۔ کئی گھنٹوں کے غور کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ خون پسینہ ایک کرتے ہوئے ہم محدود آمدنیوں والے جو رقم بچاتے ہیں وہ ایسے آلات کی تنصیب پر ضائع ہوجاتی ہے جو استعمال کے حوالے سے دیرپا نہیں ہوتے۔ 2018ء کی سردی کا آغاز ہوتے ہی گیس کا بحران شروع ہوگیا تھا۔ اس برس کے اکتوبر میں عمران حکومت کے حکم پر بیروزگار ہوا تھا۔ بیروزگاری کے دن اپنا مکان تعمیر کرنے میں صرف کردئے۔ سردیوں کے آغاز سے گیس کی کمیابی مجھے یہ سوچنے کو مجبور کرسکتی تھی کہ 2018ء کے بعد سے ہمارے گھروں میں گیس کی پائپوں کے ذریعے ترسیل بتدریج ختم ہوجائے گی۔ بہتر یہ ہوتا کہ گھر تعمیر کرتے ہوئے میں ایسا باورچی خانہ تیار کرواتا جہاں گیس حکومت کے بچھائے پائپوں کے بجائے بازار سے ضرورت کے مطابق خریدے سلنڈروں کے ذریعے فراہم ہوتی۔ غسل خانوں میں پانی گرم رکھنے کو بھی ایسا ہی نظام درکار تھا۔ اگرچہ گرم پانی کے استعمال کو عمران خان صاحب کے وزیر برائے گیس جناب غلام سرور خان نے نہایت رعونت سے ’’عیاشی‘‘ ٹھہرایا تھا۔ نام نہاد پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ہم محدود آمدنی والوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں مستقبل کی مصیبتوں سے نبردآزما ہونے کے قابل ٹیکنالوجی سے آگاہ کرنے کا کوئی منظم وسیلہ میسر نہیں ہے۔ حکومت کی من مانیاں بھی ہمیں ایسے اقدامات لینے کے قابل نہیں بناتیں جو زندگی کو پرسکون رکھیں۔ مثال کے طورپر مجھے سرکاری سطح سے ابھی تک مؤثرانداز میں یہ اعتبار نہیں دلایا گیا کہ آئندہ تین مہینوں میں اضافی بجلی والوں سے بجلی کے فی یونٹ کے رعایتی نرخ چارج کئے جائیں گے۔ ایسا اعتبار میسر ہوتا تو ہم میاں بیوی جی کڑا کرکے بجلی کا وہ چولہا نصب کرواچکے ہوتے جو دیکھنے میں بہت دلنشین بھی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت