آزاد کشمیر میں گورننس کا بحران۔۔۔۔ تحریر :سردار عبدالخالق وصی


کسی بھی ریاستی ڈھانچے میں پارلیمنٹ انتظامیہ اور عدلیہ اسکے تین بنیادی ستون ھوتے ھیں جن پر وہ ریاست قائم اور داخلی و خارجی محاذوں پر نبرد آزما رھتی ھے۔
آزاد جموں وکشمیر کا خطہ اس لحاظ سے معروف معنوں میں ریاست تو نہیں ھے کہ اس میں بنیادی طور پر ریاست کے بنیادی اجزائے ترکیبی کا نہ صرف فقدان ھے بلکہ اسکی ایک مخصوص حیثیت ھے اقوام متحدہ کی UNCIP قراردادوں کے مطابق یہ خطہ ایک لوکل اتھارٹی کا درجہ رکھتا ھے لیکن ھماری ماضی کی سیاسی قیادت/ کلاس نے اسے ایک ریاست نما کے طور پر اسٹیبلش کیا کہ اس ریاست کے پاس ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں جھنڈا،ترانہ، ایک قانون ساز اسمبلی،ایک متحرک انتظامیہ(حکومت) اور ایک عدلیہ (سپریم و ھائی کورٹ اور ماتحت عدالتی نظام)کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستی نوعیت کے سیاسی،انتظامی،مالیاتی،
تعلیمی،فنی ادارے،الیکشن کمیشن،پبلک سروس کمیشن اور مواصلاتی رسل و رسائل کا سٹرکچر موجود ھے۔
اقتدارِ اعلیٰ
Sovereignty
تو اس وقت بڑے بڑے ملکوں کی داؤ پر رھتی ھے سو آزاد کشمیر ایک خود مختار ملک کا سٹیٹس نہیں رکھتا اس لئے اقتدار اعلیٰ یہاں موضوع بحث نہیں ھوگا۔
ایک مثالی پارلیمانی نظام میں، ایگزیکٹو اور قانون ساز شاخوں کے درمیان اختیارات کی واضح علیحدگی ہوتی ہے۔ تاہم آزاد کشمیر میں اس وقت جو صورت حال ھے وہ نہ صرف اس لحاظ سے دھندلی نظر آتی ھے بلکہ بدترین سیاھی کا نمونہ ھے۔دنیا کا کوئی جمہوری ملک بغیر سیاسی جماعتوں کے نہیں چل رھا ھے ماسوائے آزاد جموں وکشمیر کے جہاں اس وقت کسی سیاسی جماعت کی حکومت نہیں ھے بلکہ ایک ایسے گروہ پر مشتمل حکومت ھے جو سربراہ حکومت(وزیراعظم) سمیت اپنے ذاتی مفادات کے تابع ھے جنکے بارے کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ھیں 53 کے ایوان میں سے 29 اراکین نے وزیراعظم کو مطلوبہ اکثریت دلوائی, پیپلز پارٹی کے 12 اور مسلم لیگ ن کے 7 اراکین نے بلا ضرورت اس تعداد میں اضافہ کیا جسکی حکومت سازی کے لئے کوئی ضرورت نہ تھی اس سے وزارتی عہدوں پر فائز ممبران اسمبلی کی تنخواہوں و مراعات میں تو بے تحاشا اضافہ ھوگیا لیکن عوام کو اور نہ ریاست کو اسکا کوئی فائدہ ھے اس اضافے نے مقننہ کو انتظامیہ کے تابع فرمابردار بنا دیا ھے۔
اس سے طاقت کے توازن اور موثر حکمرانی پر سوال اٹھتے ہیں۔

مثالی ایگزیکٹو-قانون سازی کا تناسب:
اگرچہ اس بارے مخصوص تعداد کا تعین تو مقرر نہیں ھے،لیکن معروف جمہوری ممالک کی پارلیمانی نظام حکومت میں عمومی رہنما خطوط متعین ھیں۔

– کم سے کم ایگزیکٹو نمائندگی: پارلیمانی نظام میں، ایگزیکٹو برانچ کی نمائندگی وزراء کی ایک چھوٹی ٹیم کے ذریعہ کی جانی چاہئے، عام طور پر اسمبلی کے کل اراکین کا تقریباً 10-15% سے زیادہ کسی بھی صورت میں نہیں ھونا چاھیے۔اسی آئینی قانونی و اخلاقی ضرورت کے پیش نظر تیرھویں آئینی ترمیم میں اس بنیادی ضرورت کو آئینی تحفظ دیا گیا تھا جسے بعد میں خود ھی ریورس کردیا گیا جو ایک المیہ سے کم نہیں ھے۔
– مؤثر اپوزیشن: ایک مضبوط اپوزیشن احتساب اور ایگزیکٹو پر نظر رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ مثالی طور پر، اسمبلی کا 30-40% اپوزیشن اراکین پر مشتمل ہونا چاہیے۔ لیکن آزاد کشمیر اسوقت وہ واحد خطہ ھے جہاں یہ توازن ایک سوالیہ نشان ھے۔
– آزاد اراکین: اپوزیشن اور ٹریژری بنچز کے درمیان آزاد اراکین کی ایک چھوٹی سی تعداد غیر جانبدارانہ نقطہ نظر فراہم کر سکتی ہے اور ایگزیکٹو اور اپوزیشن کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں مدد کر سکتی ہے لیکن آزاد کشمیر کی پارلیمان واحد ھے جہاں اپوزیشن کے دعوے داروں نے بھی وزیراعظم کے انتخابات میں ووٹ تو وزیراعظم کو دئیے اور اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن بنچ کی تزہین و ارائش و حصول مراعات کے لئے بھی حاضر ھوگئے۔

پارلیمانی طرز حکمرانی کے لیے اختیارات کی علیحدگی واضح طور پر ایگزیکٹو، قانون سازی، اور عدالتی شاخوں کے کردار اور ذمہ داریوں کا تعین واضع ھے لیکن آزاد کشمیر میں اسوقت اسکا کوئی وجود تک نہیں ھے ایگزیکٹو کو جوابدہ رکھنے کے لیے مضبوط میکانزم پارلیمانی نظام حکومت کا ایک خاص عنصر کا درجہ رکھتا ھے لیکن یہاں کا باوا آدم ھی نرالہ ھے۔
آزاد کشمیر کا موجودہ منظر نامہ، جہاں ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد وزارتی عہدوں پر فائز ہے، اس سے حکومت کی کارگزاری سے لیکر احتساب،شفافیت اور گڈ گورننس سمیت تمام لوازمات ایک سوالیہ نشان بنے ھوئے ھیں۔
جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ھے وزارتوں کی بھرمار کے باوجود وزراء حکومت سکریٹریز حکومت اور نیچے ڈسٹرکٹ آفیسران تک سب ھاتھ پر ھاتھ رکھے بیٹھے ھیں انکے تمام تر اختیارات وزیراعظم نے خود سنبھال رکھے ھیں کسی جگہ اگر نائب قاصد کی آسامی خالی ھے تو اسکی تقرری کی فائل بھی وزیراعظم کے دراز میں پڑی ھے یہی وجہ ھے کہ آزاد کشمیر اسوقت مسائل کی دلدل میں دھنس چکا ھے سکول کالجز اور صحت و دیگر عوامی ادارے سٹاف کی کمی،سڑکیں شاھرات سرکاری عمارات عدم توجگی اور فنڈز کی عدم فراھمی کا بری طرح شکار ھیں۔ اسکا سب سے بڑا نقصان یہ ھوا کہ وہ ترقیاتی منصوبے اور سڑکیں سابق دور حکومت میں منظور ھوئے تھے انکے فنڈز بند کر کے نئے منصوبے شروع کئے گئے جس سے پرانے منصوبوں کے لئے مختص فنڈز بروقت نہ ریلیز ھونے کے باعث ان پر کام گزشتہ تین سالوں سے بند پڑا ھے اور اب وہ کبھی بھی مرحلہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائیں گے کیونکہ مہنگائی کے باعث ان پر کوئی کنٹریکٹر کام مکمل نہیں کر پائے گا اسکی ذمہ دار بھی موجودہ وزیراعظم پر ھوتی ھے۔
تین سال کے بعد این ٹی ایس اور پبلک سروس کمشن ھوا اور وہ بھی تشنہ تکمیل کہ جس ادارے میں تین سال پہلے ایک یا دو آسامیاں خالی تھیں اس وقت 10/10 اسامیاں خالی ھیں اور تقرریاں بڑی مشکل سے ایک یا دو ھو پاتی ھیں۔
کشمیریوں کی پاکستان سے لازوال وابستگی اور کمٹمنٹ ھر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر رھی ھے لیکن اسوقت صورت حال یہ پیش کی جارھی ھے کہ پورا آزاد کشمیر پاکستان مخالف نظریات کی آمجگاہ بنا ھوا ھے یہ صورت حال کس نے پیدا کی اس کا زمہ دار یہ ٹسٹ ٹیوب بے بی نظام حکومت ھے جسکا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے ھے اور نہ انکا کوئی سیاسی قبلہ متعین ھے۔
سیاسی جماعتوں کو غیر موثر کرنے کا نتیجہ اس افراتفری کی صورت میں منہ چڑا رھا ھے
ذمہ دران جو بھی ھوں نتائج خطرناک ھیں بمہربانی توجہ کیجیے
اس خطہ آزاد کشمیر کو نظریاتی پسپائی سے بچائیے۔