زندگی اور موت دو اٹل حقیقتیں ہیں ان کا چولی دامن کا ساتھ ازل سے ابد تک برقرار رہے گا _جہاں زندگی خوشیوں کے پھول ہمارے قریہ دل میں مہکا تی ہے، وہیں دکھوں، تکلیفوں اور جدائیوں کے دل فگار موسموں سے بھی روشناس کراتی ہے _ہم جب حیات فانی کا جائزہ لیتے ہیں تو فیصلہ کرنا مشکل ٹھہرتا ہے کہ ہماری جھولی میں خوشیوں اور غموں میں سے کس کی بہتات ہے! اکثر لوگ ہر وقت غم جہاں کی گھٹری سر پر اٹھائے آہ و فغاں میں لگے رہتے ہیں مگر چند باکمال ایثار کیش اور صابر انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذات کے اندر قطرہ قطرہ رستے لہو کو دوسروں کی نظر سے اوجھل رکھتے ہیں _اپنی آرزؤں، تمناؤں اور خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اہل خانہ کے دامن کو خوشیوں سے بھر نے کی سعی لاحاصل میں اپنی زندگی تیاگ دیتے ہیں ____بس ایسے ہی تھے میرے بشیر صاحب ____جن کے وسیلے سے اس جہان رنگ و بو میں کھلنا نصیب ہوا _جن کی تربیت اور علم کی بدولت زندگی کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل ہوئی _چھ سال قبل 15 نومبر 2017 کی رات کے پہلے پہر سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا یکدم ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے وجود سے کچھ الگ ہو رہا ہے _دل ڈوب رہا تھا اور بدن میں خون کی گردش تھم رہی تھی اچانک برادر خورد عمران کا فون ریسو ہوتا ہے وہ روتا چلا جا رہا تھا__سسکیوں اور آہوں کے طوفان میں گویا ہوا “اللہ نے ہم سے اپنی امانت واپس لے لی ہے” بالآخر ہر روح نے اپنے پروردگار کے پاس ہی لوٹنا ہے مگر کچھ ہستیوں کی جدائی زندگیوں کا تاعمر روگ بن جاتی ہے ___ان میں ماں باپ کی رخصت حیات کا مرحلہ جان لیوا بن جاتا ہے دل و دماغ کو جسقدر سمجھا نے کی کوشش کریں سمجھتا ہی نہیں ہے کیونکہ انسان اپنے ماں باپ کے وجود سے جنم لے کر الگ اکائی تو بن جاتا ہے مگر روحانی، جذباتی اور ذہنی طور پر ان کے ساتھ بندھا رہتا ہے اور موت کے بعد بھی خوابوں، خیالوں میں وہ ان کے حصار میں رہتا ہے _گزارش احوال من کیا کروں والد محترم کئ ماہ سے شدید علالت میں زندگی موت کے دوراہے پر کھڑے تھے ذرا بہتر ہوئے تو کہنے لگے “تمہاری ماں کے ساتھ میرا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا مگر اب میں ٹھیک نہیں ہوں” وہ اپنی قوت ارادی کے ذریعے زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے کوشاں تھے مگر جسم کی شکست وریخت آڑے تھی عمران کو اللہ تعالیٰ آجر عظیم دے اس نے مقدور بھر کوشش کی ڈاکٹروں اور مہنگے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی کوئی کسر نہ چھوڑی مگر جب رب العالمین کے حضور حاضر ہونے کا حکم صادر ہو جائے تو انسان کیسے حکم عدولی کرسکتا ہے جائے والے کو کون روک سکتا ہے وہ کہاں چلا جاتا ہے یہ پہیلی تو کوئی جان ہی نہیں سکا
وے صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
پچاس برس سے زائد کا عرصہ بشیر صاحب کے سایہ عاطفت میں گزرا وہ ہر دم ہر گھڑی اپنی محبتوں، شفقتوں اور جذبوں کی بے لوث روشنی اپنے چار سو بکھیرتے رہے اپنے عالی کردار، سادگی اور عاجزی سے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا ئے رکھا _وہ درویش صفت انسان تھے جہنیں دنیاوی لوازمات سے کوئی شغف نہی تھا تمام عمر درس و تدریس سے منسلک رہے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے قرآن، حدیث اور فقہ پر اتھارٹی تھے ہزاروں تشنگان علم کی پیاس بجھائی اور دین اسلام کی صحیح حقیقتوں سے روشناس کرایا سینکڑوں احادیث اور قرآنی آیات ان کے لوح ذہن پر نقش تھیں اور ہر دینی مسئلے کو مکمل دلائل سے ثابت کر دیتے تھے علوم اسلامیہ کے علاوہ عربی، فارسی، اردو ادب، فلسفہ اور مقابل مذاہب پر ان کا وسیع مطالعہ تھا بین الاقوامی اسلامی تحریکوں کے خوشہ چیں تھے سید مودودی، سید قطب اور سید سلمان ندوی سے بے حد متاثر تھے مودودی صاحب سے تو براہ راست زانوئے تلمذ طے کیے _ میری اور ان کی سیاسی سوچ میں اختلاف رہتا تھا مگر وہ کبھی بھی اپنی رائے مجھ پر ٹھوستے نہیں تھے زندگی میں کئی مرتبہ ان کا دل دکھایا مگر وہ کبھی بھی اس کا برا نہیں مناتے تھے جسکی کسک آج بھی دل میں جھبن بن کر ابھرتی ہے انہوں نے اپنے بچوں پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بار بار قرآن ترجمے، تشریح اور درست قرآت اور لہجے سے پڑھا یا ان کی ذہانت اور قابلیت کی بدولت نہ صرف ان کی اولاد اعلی دنیا وی مناصب پر فائز ہے بلکہ ان کرموں کے صدقے تیسری نسل بھی زندگی میں کامیابیوں کی منازل طے کر رہی ہے وہ اپنی شریک حیات سے بے حد محبت کرنے تھے اور ان کی ہر بات مانتے تھے سوائے دین اور شریعت کے، ان معاملات میں وہ والدہ محترمہ کی رہنمائی کرتے تھے میرے ساتھ ان کا رشتہ راہبر، دوست اور ناقد کا تھا آج انکی فانی شخصیت تو کہیں کھو گئی ہے مگر حقیقت یہ ہے
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں
پھول ہے اک کھلا ہوا حاشیہ خیال میں
آج زندگی کی شام ہو گئ ہے اماں ابا جب ساتھ تھے تو میرے اور ان کےمشترکہ گھر میں بہن بھائیوں، بچوں اور رشتہ داروں کا تانتا بندھا رہتا تھا پر طرف خوشیوں کا جہان آباد تھا وہ کیا رخصت ہو ئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے، آج میری زندگی میں ہر طرف ایک سناٹا اور ویرانی ہے جس میں صرف نواسوں کی چہچہاہٹ ہی زندگی کی معنویت کا احساس دلائے رکھتی ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے
اگرچہ والد صاحب کی یاد دل کو ہر وقت مغموم اور اداس رکھتی ہے مگر وہ زندگی بھر میرے لیے سائبان رہےان جیسا شفیق اور عمیق انسان شاہد ہی کوئی ہو ا آج بھی خوابوں خیالوں میں دکھائی دیتے ہیں حوصلہ بڑھاتے ہیں
شام شہر پول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
قارئین اور احباب سے گزارش ہے کہ آج ان کی برسی پر تین دفعہ درود شریف اور قل شریف پڑھ کر مغفرت کی دعا فرمائیں، احسان عظیم ہو گا
عمران خان کا فون آیا کہ میری ان کی قبر پر جانے کی ہمت نہیں ہے تو کیا بتاؤں اسکو کہ روزانہ کئ دفعہ ان کی آخری آرام گاہ کے قریب سے گزرتا ہوں مگر پھول چڑھانے کا ارادہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا ہے کیونکہ
جس کا ساکن ہے مری ذات میں اب تک زندہ
پھول اس قبر پہ جا کر میں چڑھاؤں کیسے
Load/Hide Comments