جو سنگِ میل کبھی تھا، وہ سنگ راہ کا ہے…کشور ناہید

اسلام آبادکے گندھار اسٹوڈیو میں سمیعہ ممتاز اور عرفان جہانگیر نے دو آتشہ رقص بعنوان ’’جاگ‘‘ پیش کیا۔ یہ امتزاج تھا بھرت ناٹیم اور کتھک ڈانس کا ۔ بہت عمدگی سے پیش کرنے کے بعد، دونوں مجھ سے دعائیں لینے آئے تو سمیعہ نے شکایت کی کہ ہم دونوںآپ کی اور فہمیدہ ریاض کی شاعری سے کچھ ٹکڑے نکالنا چاہتے تھے، مگر آپ لوگوں کی شاعری میں امید نہیں، شکستگی ہی دکھائی دی۔ اچھا تمہیں پاکستان کی سیاست، معیشت اور تہذیب میں خزاں، آسمان سے زمین تک طاری دکھائی نہیں دیتی۔ شاعری نے بھی بہت فریب دیئے، عشق، وصال اور خواب کے، مگر آج کا شاعرکو بہت بدلے ہوئے بے حس معاشرے اور گرتی ہوئی تہذیب میں، کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ جبھی تو اپنی خامیوں اور آزردگی کو بیان کرنےکیلئے، لکھنا پڑتا ہے کہ باہر کیسے جاتی میں، دروازہ میرے اندر تھا۔ اس دروازے پہ پہرہ ہے جاگیرداروں کا، سیاسی شعبدہ بازوں اور اسمگلروں کا، جو ویسے تو آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ابھی تک مصنوعی الفاظ میں ہر حکومت میں یہ کہتے ہیں۔ ’’بہت جلد حالات بدل جائیں گے۔ اب تو جج ہوں کہ صوفیا کا لبادہ اوڑھے لوگ، اندرخانے سب ملے ہوئے ہیں اور اب تو ’’مداری تماشہ کیا دکھائے گا‘‘۔ بڑبڑاتے ہوئے کبھی اخبار کھولتے ہی غصے میں بند کر دیتی ہوں اور کبھی میڈیا کے سارے چینل ایک ہی راگ الاپتے ہوئے کہ بہت جلد پاکستان میں خوشحالی آئے گی کا سبق دہراتےہیں، ملکوں ملکوں اب نعرہ بھی بدل گیا ہے۔ کہتے ہیں قرض نہیں۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر تجارت کریں گے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، کفایت کے نام پر غریبوں کی پوسٹیں ختم کرکے، ہر قسم کے ججوں کے واسطے، دولت کی پٹاری کھولتے خوش فہم ہیں کہ اب منصفانہ معاشرہ جنم لے گا۔

بات تو شروع میں تھی ادبی کانفرنس کے حوالے سے مگر مشاعرہ ہوا کہ مختلف مذاکرے، مایوسی اور اکتاہٹ کا عنصر غالب رہا۔ بس ایک زہرہ نگاہ تھیں جو ’’ٹھنڈا کرکے کھائو‘‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، کچھ پرانی اور نئی غزلیں سن کر نوجوان بھی جو تعداد میں بے شمار اور کاپیاں لئے، شعر اور فقرے نوٹ کرنے کیلئےہر نشست میں شامل ہوتے۔کوئی کھلی کتاب رکھے اگلے سیشن کی جانب دوڑکے پہنچ جاتا کہ شاید ٹرمپ اور عمران کے طرز حکومت، کیا پھر ایشیا ہی کیا یوکرین اور فلسطین میں جنگ پہلے کبھی، ان دونوں کے منہ میں عقل داڑھ ہے کہ نہیں مگر گزشتہ برسو ں میں حکومت کرتے ہوئے جو گل کھلائے ان دونوں نے، اب تو چور ہوکر سامنے آئیں گے۔ اللہ معاف کرے۔

نوجوانوں کو پڑھانےکیلئے، عنوان تھا ’’پاکستانی اردو ادب کے خدو خال‘‘۔ میں بھی اس مذاکرے سے کچھ سیکھنے کیلئے ہاتھ میں قلم لئے بیٹھی تھی مگر خدوخال پہ نہ کسی نے اشارہ کیا، نہ کسی تحریک کا حوالہ دیا۔ جبکہ غزل نے بھی کتنے پرت بدلے ہیں کبھی اختر شیرانی، کبھی میرا جی اور جدید میں طارق نعیم اور حارث خلیق نے نظم و غزل کے ابلاغ کے رویئے اور بیان کیلئے نثری نظم میں ذیشان ساحل نے جو لہجہ اختیار کیا، اور اب تو نسوانی لہجے نے شاعری کا کینوس ہی بدل ڈالا ہے۔ یہ سب باتیں میرےجیسے سینئر لوگوں نے نہیں کہیں، کہا تو یہ کہ ہماری قومی زبانوں میں ادب بہت آگے نکل گیا ہے۔ کیا نیا لکھا گیا۔ وہ بیان میں موجود ہی نہیں تھا۔ اب میں نے’’خدوخال‘‘ تلاش کرنے کیلئے، اخباروں کے سنڈے ایڈیشن کی فائلوں کو کھول لیا۔ دیکھا ایران کی خواتین اپنے سونے کے زیورات اتار کر فلسطینیوں کیلئے بھیج رہی تھیں۔ یہ منظر کسی اور اسلامی ملک میں نظر نہیں آیا۔ ساتھ ہی بلوچوں کی فریادیں، گم شدہ لوگوں کیلئے دھرنے اور گلگت اور ہنزہ میں خود کش دھماکے جو اب کراچی تک میں مسافروں کو لاشوں میں بدل رہے ہیں۔ تسلی دینے کو پھر وہی بوسیدہ نعرے بازی کہ ’’دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ ضیا کے زمانے سے یہ یبوست، ہماری نئی نسل کو ڈرانے، دھمکانے کو دہرائی جاتی ہے۔ دہشت گردوں کو واپس پاکستان میں لاکر پھر آباد کرنے والے کو ابھی تک عقل نہیں آئی اور اب بے وقوفی اتنی کہ ٹرمپ سے جو خود مجرم ہے اور 20جنوری کو عہدہ سنبھال لے گا۔ اس کا نام لیکر، عمران خان کی رہائی کے بے معنی نعرے لگائے جارہے ہیں۔

آکسفورڈ کی اس کانفرنس کے دوران خبر ملی کہ ہماری بہت بہادر خاتون لمبی بیماری سہہ کر، دنیا سے چلی گئی ہیں۔ یہ خاتون تھی ’’سعیدہ گزدر، جو نظمیں، مضامین اور بہت کچھ کرتی رہی، جب تک اس کے اعصاب میں تھوڑی بہت جان رہی۔ اس کو یاد کرنے کیلئے کراچی ادبی کانفرنس جو احمد شاہ کرواتے ہیں اس میں اور دوستوں کے ساتھ مل کر باتیں کریں گے۔ یہاں بھی نوجوان نسل بہت زیادہ آتی ہے۔ اُسے فہمیدہ ریاض، انتظار حسین اور احمد فراز جیسے شعلہ رو یاد کریں گے۔لاشیں، کراچی میں تو ایم کیو ایم کے دور سے شروع ہوئیں۔ ان پچاس برسوں میں مصنوعی ذہانت نے ہمارے جیسوں تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مگر ہماری حکومتیںکہتی رہیں گی۔ ’’دشمنوں کو نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ