آج کل پاکستان کے بہت سے شہر سخت آلودگی کا شکار ہیں، آلودہ ہواؤں نے پاکستان بھر کی فضاؤں کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے، فضا ہی نہیں پورا ماحول آلودہ ہے۔بالخصوص پنجاب اس وقت شدید سموگ کی زد میں ہے، لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہے اور آلودہ ترین شہروں میں اوّل نمبر پر ہے اس طرح دوسرے شہروں کی حالت زار ہے ۔ فضائی آلودگی نے پنجاب وسطی ،جنوبی اور شمالی کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، معمولات زندگی متاثر ہی نہیں درہم برہم ہیں، ناک کان آنکھ اور سانس کی بیماریاں عروج پر ہیں ۔ عوام ہیں کہ سموگ کی شدت کے باوجود ماسک پہننے کو تیار ہیں اور نہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو۔ حکومت نے احتیاطی طور پر سکولز بند کر دیئے ہیں ۔جبکہ سرکاری دفاتر میں بھی حاضری مسلسل کمی کا شکار ہے ۔ بازاروں اور کاروبارپر بھی لاک ڈاؤن کے اثرات ہیں جس سے تاجر سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔محکمہ ماحولیات کے مطابق آنے والے دنوں میں سموگ کی شدت میں اضافہ کا امکان ہے ۔ موٹروے کا انتظام وانصرام کرنے والے بھی دن میں سفر کرنے کی طرف متوجہ کررہے ہیں کہ رات میں موٹروے پر سفر نہیں کیا جاسکتا۔
سموگ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے ۔ حکومت کو سموگ کی شدت سے قبل ہی اقدامات کرلینے چاہئیے تھے لیکن ہر سال کی طرح اس سال بھی اقدامات سے زیادہ مصنوعی دکھاوے اور اشتہارات سے کام چلایاگیا ہے ۔وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرماحولیات بیرون ملک دورہ پر ہیں ان کا انداز شاہانہ اور بادشاہانہ ہے۔ گزشتہ 40 سال سے پنجاب پر حکمرانی کرنے والی شریف فیملی کے ترقی کے دعوؤں کی قلعی سموگ نے کھول کر رکھ دی ہے ۔ ترقی کے سب دعوے خواب اور ہوا ہو گئے۔
گزشتہ کئی سالوں سے ان دنوں سموگ کا عفریت نازل ہوتا ہے ، ہوائیں، فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ حکومتی سطح پر میٹنگز اور اعلانات ہوتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں ہو پاتا، سموگ کے یہ دن جیسے تیسے گزر جاتے ہیں نہ جائزہ ہوتا ہے اور نہ احتساب اورپھرنئے سال ایسے ہی اعلانات ،اشتہارات ا ور دکھاوے کے اقدامات کی نذر ہو جاتے ہیں۔
سموگ کی شدت اور معمولات زندگی پر اس کے اثرات کسی عذاب سے کم نہیں ہیں ، جتنے دن سموگ کی شدت باقی رہتی ہےمعمولات زندگی شدید متاثر رہتے ہیں۔
پنجاب میں سموگ کا ذمّہ دار کون ہے حکومتیں ، سیاستدان یا عوام الناس؟ نئی تعمیرات ، پلازے اور بلند و بالا عمارات یا زرعی زمینوں کو نگلتی ہوئی نئی سوسائیٹیز؟
لاہور جیسے شہر میں کوئی خالی جگہ تلاش کرنا محال ہی نہیں ناممکن ہوگیا ہے؟ میٹروبس سروس کے بعد اورنج لائن ٹرین جیسے بڑے پراجیکٹس نے لاہور میں خالی جگہ نہیں رہنے دی۔ سبزہ اور ہریالی ماحول دوستی کی علامت ہوتے ہیں لیکن ان کو کوئی کہاں ڈھونڈنے جائے؟ ماحول کیسے صاف ہو اس کا سراغ نہیں ملتا ۔ بھارتی پنجاب پر الزام سے تو سموگ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا، سموگ کے خاتمےکیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے جس سے موجودہ حکومت محروم نظر آتی ہے۔ حکومت کا چند دنوں اور مخصوص علاقے میں گرین لاک ڈاؤن کا اعلان بھی کوئی خاص کارگر نہیں ہوا۔
سموگ میں فضلات جلانے کا سب سے کم حصہ ہے یعنی %4 سے بھی کم %3.9اور سموگ کا سب سے بڑا ذریعہ ٹرانسپورٹ ہے جو کہ %83.15 سموگ کا باعث ہے اور کوڑا کرکٹ %3.6 ہے۔
بقول سعود عثمانی
فصلیں قاتل زہر سے بھردیں پانی کو زہر اے کیا
سم آلود ہوائیں چھڑکیں صاف ہوا کے دھارے پر
اک اک کر کے تم نے زمین کے سارے تناسب ختم کئے
تم سے پہلے ایک توازن تھا اس نیلے سیارے پر !
سموگ کی خطرناکی اور شدّت میں ہر آنے والے دن اور سال میں اضافہ ہوتا ہے کمی نہیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت سموگ ایشو سے نمٹنے کیلئےبروقت اور سنجیدہ اقدامات کرے، انسانی زندگی بہت قیمتی ہے زندگی کو آسان اورسہل بناناحکومت کی ذمّہ داری ہے،حکومت کو چاہیے کہ وہ سموگ کے موسم کے آغاز سےقبل سنجیدہ اقدامات کی پلاننگ کرے،جس سے ماحول بہتر بنانے میں مدد ملے جومحکمہ ماحولیات کی ذمّہ داری ہے۔
حکومت گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد کم کر کےکچھ ازالہ کرسکتی ہے ، ایک سے زائد گاڑی رکھنے پر پابندی ہو ، الیکٹرک گاڑیوں کے کلچرکو فروغ دیا جائے۔ سفر کی سہولیات بہتر کر کے نجی گاڑیوں کی تعداد کم کی جائے۔
۔ کچرا جلانے کی سختی سے ممانعت ہو ،جلانے والوں پر جرمانہ ہو۔
۔ پیدل چلنے والوں کو پیدل چلنے کی بہتر راستوں کی صورت میں سہولت مہیا ہو۔
۔ سبزہ اور ہریالی بڑھانے کیلئے پیکجز کا اعلان اور اقدامات کئے جائیں۔
ان چند ایک اقدامات کے نتیجے میں یقینی طور پر سموگ سے نمٹنے میں مدد ملے گی ۔اصل ضرورت یہ ہے کہ حکومت دکھاوے کے نہیں سنجیدہ اقدامات پر آمادہ ہو اور عوام ذمہ دار شہری کا کردار ادا کریں۔