طالبان دو سال چھ ماہ بعد، اور حماس چار سو دن بعد….تحریر: ادہم الشرقاوي (فلسطینی قلم کار)


دو دن پہلے افغانستان نے اپنے آخری بین الاقوامی قرض کی ادائیگی کا اعلان کیا اور اب وہ ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس پر کوئی بیرونی قرض نہیں ہے!

یہ سب طالبان کی حکومت میں واپسی کے صرف دو سال چھ ماہ کے عرصے میں ہوا۔

طویل عرصے سے مغربی اور عرب سرمایہ دارانہ میڈیا نے ہمیں طالبان کو وحشی اور جاہل کے طور پر پیش کیا، گویا وہ غاروں میں رہنے والے ایسے لوگ ہیں جو سیاست، معیشت اور تعلیم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ انہوں نے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ طالبان عقل و دانش سے عاری ہیں اور صرف اپنی بندوقوں کے ذریعے سوچتے ہیں۔

اور اگر آپ ان کی کہانیوں پر یقین نہ کریں تو آپ کو دہشت گردوں کا حمایتی قرار دے دیا جاتا، چاہے ان کی کہانی بسکٹ کی طرح کمزور کیوں نہ ہو جو چائے کے کپ میں ڈوب جائے۔

حقیقت میں، وہ لوگ خود کو مہذب اور باوقار سمجھتے ہیں۔ وہ کسی ملک پر قبضہ کر کے اس کی حکومت گرا سکتے ہیں، اس کے لوگوں کو قتل کر سکتے ہیں، عوام کو بے گھر کر سکتے ہیں، اور اس کے وسائل لوٹ سکتے ہیں۔ پھر ایک کٹھ پتلی حکومت بنا دیتے ہیں جو ان کی خدمت کرے۔
لیکن جو شخص اپنے ملک، عزت، اور دین کے دفاع میں بندوق اٹھاتا ہے، وہ دہشت گرد اور پسماندہ قرار دیا جاتا ہے۔

مغرب کو مساجد سے خوف نہیں ہے، چاہے ہر گھر کی چھت پر ایک مسجد بنا دی جائے۔ انہیں اصل خوف اس وقت ہوتا ہے جب اسلام کو حکومت اور ریاست کا موقع ملتا ہے، کیونکہ تب مسلمان اپنی پسماندگی سے نکل کر قیادت کی طرف بڑھتے ہیں۔

اسلام جب بھی انصاف اور اعتدال کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے تو کامیاب ہوتا ہے۔ آپ افغانستان کی معیشت کا موازنہ آج کے مصر، اردن، لبنان، شام، اور عراق کی معیشت سے کریں۔ افغانستان نے عالمی بینک کی غلامی سے نجات حاصل کی، جبکہ دوسرے ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
مصر، جو کبھی دنیا کو کھانے پینے کا سامان مہیا کرتا تھا، آج گوشت کے لیے ترس رہا ہے۔

مسلم ممالک وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن انہیں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو واقعی اسلام کے مطابق ہو۔ نہ کہ وہ حکومتیں جن کے قوانین درآمد شدہ ہیں، اور معیشت عالمی بینک کے تابع ہے۔

مصری ڈرامے مذہبی افراد کو ہمیشہ دہشت گرد اور بے وقوف کے طور پر دکھاتے ہیں، اور عادل امام نے ہمیں خوب ہنسایا، جبکہ وہ یہ تصور ہمارے ذہنوں میں پختہ کر رہا تھا کہ دین داری اور پسماندگی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

آج ہم اسلام کو حکومت سے دور رکھنے کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ نہ معیشت درست ہے، نہ تعلیم، اور نہ ہی فوج۔

غزہ میں حماس کا تجربہ بھی حیرت انگیز ہے۔ جب اسلامی اصولوں پر عمل کیا جائے تو حیرت انگیز نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ 1967 کی جنگ میں ہماری مشترکہ افواج چھ گھنٹے بھی نہ ٹھہر سکیں، لیکن قسام 400 دن سے مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔

غزہ کے پاس نہ تیل ہے، نہ سونا، نہ بندرگاہیں، اور نہ ہوائی اڈے۔ ان کے پاس صرف ایک مضبوط ایمان اور پختہ ارادہ ہے۔

یہ عظیم اسلام جب حکمرانی کرتا ہے تو معجزے دکھاتا ہے!

اللہم! اپنے صالح مجاہد بندوں کو نصرت عطا فرما۔ اللہم! جلد فتح اور خوشخبری عطا فرما۔