اسلام آباد(صباح نیوز) قومی اسمبلی کے رکن مرزا اختیار بیگ نے کہا ہے کہ قرضوں کی مسلسل تجدید ملکی معیشت کیلئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے کیونکہ اب ہمیں قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرض لینا پڑ رہے ہیں۔ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ باتیں قومی اسمبلی کے رکن مرزا اختیار بیگ نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام منعقدہ قرض اور ترقی کی کھوج کے موضوع پر منعقدہ سہ روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہیں ۔مرزا اختیار بیگ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ اگر قرض کی واپسی کیلئے ایک موثر منصوبہ موجود ہو اور ا سے پیداواری سرمایہ کاری کی طرف موڑا جائے تو قرض کے اثرات منفی نہیں ہوتے ۔
انہوں نے کہا کہ قرضوں کا تناسب جی ڈی پی کے 60 فیصد کے اندر رہنا چاہئے لیکن ہمارا موجودہ تناسب 68 فیصد ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس تناسب کو 50 فیصد تک لانا چاہتی ہے، مگر موجودہ حالات میں ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قرض کو پائیدار بنانے کا واحد راستہ آمدنی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہے۔ اس ورکشاپ کا اہتمام ایس ڈی پی آئی نے فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے کیا ہے جس میں مختلف شعبہ جات کے شرکاکو پائیدار مالیاتی پالیسیاں، ٹیکس اصلاحات اور شہریوں کی طویل مدتی فلاح کے موضوعات پر اظہار خیال کا موقع فراہم کیا گیا ۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان اور سری لنکا میں قرضوں کی بڑھتی ہوئی سطح نے پورے خطے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے جس سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک قرضوں کی مشکلات یا دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔پاکستان کے قرض کا حجم اس کے جی ڈی پی کا 71.8 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کا قرضہ بالترتیب 41.1 فیصد اور 115.5 فیصد ہے۔ ان ممالک میں ٹیکس کی کم شرح بھی اس مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس جمع کرنے کی شرح صرف 12 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں یہ شرح بالترتیب 7.5 فیصد اور 7.25 فیصد ہے۔پروگرام مینیجر ایف ای ایس، عبداللہ ڈیو نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے آئین نے پارلیمنٹ کو قرضوں کے حدود مقرر کرنے کا اختیار دیا ہے تاہم موجودہ قرض کی سطح 2005 کے مالیاتی ایکٹ میں مقرر کردہ حد سے 60 فیصد سے بہت آگے جا چکی ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر پرائم، ڈاکٹر علی سلمان نے کہا کہ قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں صورتوں میں بیرونی قرضوں کا فی کس جی ڈی پی اور سرمایہ کاری پر منفی اثر پڑتا ہے۔وزارت خزانہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے قرض منیجمنٹ محسن مشتاق چاندانہ نے کہا کہ جی ڈی پی میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں استحکام آیا ہے اور سود کی شرح میں کمی کی وجہ سے استحکام کو تقویت ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ملکی قرضے 2019 سے 2024 تک دوگنا ہو چکے ہیں، جبکہ جی ڈی پی کے مقابلے میں قرض کی زیادہ شرح مالی استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہے۔میکرو اکنامک انسائٹس کے سی ای اوثاقب شیرانی نے کہا کہ پاکستان کا قرض محصولات کے مقابلے میں 700 فیصد سے تجاوز کر چکا ہیجو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ مالی سال 2022-23 میں لئے گئے قرضے پچھلے سولہ سال کے قرضوں سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ قرض ترقیاتی منصوبوں کے بجائے روزمرہ کے اخراجات پ کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس تین روزہ ورکشاپ کا مقصد بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں اور جنوبی ایشیا، خصوصا پاکستان میں ٹیکس ناانصافی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور عوامی قرض و ترقی پر بامقصد مکالمے اور تجزیے کو فروغ دینا ہے۔