مالی لین دین کے معاملہ میں نہ ہم مداخلت کریں گے اورنہ ہی حکم امتناع جاری کریں گے چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی‎


اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ مالی لین دین کے معاملہ میں نہ ہم مداخلت کریں گے اورنہ ہی حکم امتناع جاری کریں گے، فریقین کے درمیان معاملہ کے تصفیہ کے لئے کرداراداکرنے کے لئے تیار ہیں۔ معمولی سزا کے خلاف تواپیل ہوتی ہی نہیں۔ ایک شخص آپ کو مختیارعام مقررکردیتا ہے تو یہ بات مناسب نہیں کہ اپنی بیگم کے نام جائیدادکروالیں، یاتومختیارنامہ ہی نہ لیتے۔

یہ درخواست گزار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماعت کے موقع پر عدالت میں حاضر ہو۔ ساڑھے 4سال بحالی کی درخواست دینے میں لگ گئے، یہ کوئی مناسب بات تونہیں ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2رکنی بینچ نے بدھ کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 30کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے مسماة نسیم اختر کی جانب سے محمد اقبال اوردیگر کے خلاف نظرثانی درخواست کی بحالی کے حوالہ سے دائر 2درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ ساڑھے 4سال بحالی کی درخواست دینے میں لگ گئے، یہ کوئی مناسب بات تونہیں ہے۔عدالت نے درخواست خار ج کرکے ٹھیک بات کی ہے، اس حکم میں کون سی لاقانونیت ہے۔

عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے عائشہ سرفراز کی جانب سے سردار خالد سعید اللہ اوردیگر کے خلاف سول جج کی جانب سے یکطرفہ کاروائی کے زریعہ خارج درخواست کی بحالی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ اصول کے خلاف مختیار عام نے اپنی اہلیہ کے نام جائیداد منتقل کی ہے۔ اس پر وکیل کاکہناتھا کہ یہ بات ٹھیک ہے۔وکیل کاکہناتھاکہ عائشہ سرفراز بینیفشری ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خاوند کی جائیداد نہیں تھی یہ تواٹارنی تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک شخص آپ کو مختیارعام مقررکردیتا ہے تو یہ بات مناسب نہیں کہ اپنی بیگم کے نام جائیدادکروالیں، یاتومختیارنامہ ہی نہ لیتے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ تینوں ماتحت عدالتوں نے فیصلہ دیا کہ بحالی کی درخواست قابل سماعت نہیں۔عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے فردوس اختر کی جانب سے عطاء اللہ اوردیگر کے خلاف دعویٰ بحالی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 23سال بعد توآپ آئے ہیں ، ابھی ہم سے کیا مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 23سال وکیل کی غلطی تونہیں ہوتی۔ عدالت نے قراردیا کہ درخواست گزارنے مقدمہ بحالی کی درخواست 23سال بعد دی، ہائی کورٹ کاحکم قانون کے مطابق ہے۔

عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے محمد ناصر ، خالد مصطفی اور امجد مشتاق کی جانب سے صدر /سی ای او ایس ایم ی بینک لمیٹڈ، اسلام آبا د اوردیگر کے خلاف دائر 3درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں ہائی کورٹ کے فیصلے میں چیلنج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نجی بینک کے خلاف رٹ پیٹیشن قابل سماعت نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کیس کافیصلہ کیا ہے اورانہوں نے ٹھیک بات کی ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کوہدایت کی کہ وہ سپریم کورٹ کا عبدالوہاب بنام ایچ بی ایل 2013کا فیصلہ پڑھ کرآئیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔ بینچ نے فیصل رحمان رحیم کی جانب سے رجسٹرار اوردیگر کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ ، لاہور کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کااپنا قانون ہے اس کے تحت چیلنج کرسکتے تھے رٹ میں کیوں آئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ شکایت کیا ہے وہ اپنی درخواست میں دکھادیں، درخواست کاکون ساپیراپڑھیں، سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی تھی اس میں جو آفس اعتراض کیا تھا وہ دکھادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کے خلاف جوانکوائری تھی اس کانتیجہ کیا ہوا، اس کوچیلنج کیا تواس کانتیجہ کیاہوا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ معمولی سزا کے خلاف تواپیل ہوتی ہی نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معمولی سزاہوئی جس کے خلاف اپیل متعلقہ فورم پراپیلزیر سماعت ہے ، متعلقہ فورم سپریم کورٹ میں زیرالتواکاروائی سے متاثر ہوئے بغیر معاملہ کاجلد ازجلدفیصلہ کرے۔ بینچ نے عبدالرشید کی جانب سے سینئر سول جج گارڈین ٹوبہ ٹیک سنگھ اوردیگر کے خلاف بیوی کوخرچ دینے کے معاملہ پر کیس کی بحالی کے لئے دائردرخواست پر سماعت کی۔

جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ کیا پنجاب بارکونسل میں وکیل کے خلاف کاروائی کے لئے درخواست دی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا کیس دائر کرنے کے بعد وکیل اورعدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ درخواست گزارکو کیس کی کاروائی کی حوالہ سے آگا ہ کرے، یہ درخواست گزار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماعت کے موقع پر عدالت میں حاضر ہو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا اگرایسا کوئی قانون ہے توہم مدعاعلیہ کونوٹس جاری کردیتے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت
قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے ایم ایس ریلائی ایبل کوالٹی ڈویلپرز پرائیویٹ لمیٹڈ، کراچی کی جانب سے سیدجاوید ناصر اوردیگر کے خلاف ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ کے عبوری حکم کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے پی ٹی آئی رہنمااورسابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ جو مدعاعلیہان نے آفردی تھی وہ آپ کوکیوں قابل قبول نہیں، اگرآپ کی درخواست منظورکریں تو پھر نئے فریقین آجائیں گے اوران کے حقوق تخلیق ہوجائیں گے، آپ کاحکم امتناع نہیں بنتا اگر کوئی اورتصفیہ کرنا چاہتے ہیں توہم اُن کوبلوالیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگررقم حاصل کرنا چاہتے ہیں توٹرائل کورٹ جاکرکہیں کیس قابل سماعت نہیں، ہم معاملہ ثالثی میں ڈال دیتے ہیں اور نقصانات کے ازالہ کادعویٰ واپس کروادیتے ہیں، اگر مدعا علیہان کوبلوانا چاہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ٹرائل کورٹ کو کہہ دیتے ہیں کہ وہ ٹرائل جلدختم کرے۔ چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کااحمد اویس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک آپشن سیٹلمنٹ کا ہے اور دوسرا تین ماہ میں ٹرائل مکمل کروادیتے ہیں۔

جسٹس شاہد بلال حسن کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا دعویٰ میں کہیں کیس کے قابل سماعت نہ ہونے کامئوقف اپنایا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سب سے بہتر ہوگا کہ ہم کہہ دیں کہ ٹرائل 3ماہ میں مکمل کریں۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ ہم وکیل کاساراکام نہیں کرتے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھامالی لین دین کا معاملہ ہے اور فریقین کے درمیان تصفیہ ہوسکتا ہے ، ہم تصفیہ کے لئے مدعاعلیہان کوبلالیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اُس دن آپ کودلائل دینے کی اجازت نہیں دوں گا۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کل آجائیں اوراپنے مئوکل سے واضح ہدایات لے لیں، ہم حکم امتناع نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 15دن یا1ماہ تصفیہ کے لئے دے دیں گے۔ بعدازاں نے مدعاعلیہان کونوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعہ 15نومبر تک ملتوی کردی۔