اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئرترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ٹیکس کے حوالہ سے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اس وقت کوئی آئینی بینچ نہیں تو یہ جو غیر آئینی بینچ بیٹھا ہے اسکا کیا کرنا ہے،جب تک آئینی بنچ نہیں بیٹھے گا کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ہم کیا کریں؟ مطلب ہے کہ جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھتا آئینی مقدمات نہیں سنے جائیں گے۔کہ ہم اس کیس کو سن بھی لیں تو کوئی ہمیں پوچھ نہیں سکتا، اب بار بار یہ سوال سامنے آہا ہے کیس ریگولر بنچ سنے گا یا آئینی بنچ، اگر ہم آج فیصلہ کردیتے ہیں تو پھر کون ہمارے فیصلے کوکالعدم قراردے گا، نظرثانی بھی ہمارے پاس آئے گی ہم کہیں گے کہ یہ ہمارااختیار ہے، چلیں اس میں کیا پڑنا ہے، ہم کوئی واضح نقطہ نظر نہیں دیتے صرف کیس کی سماعت ملتوی کردیتے ہیں، کیا ہم کیس سن سکتے ہیں کہ نہیں کوئی معاونت وکیل کی جانب سے نہیں آرہی۔ جب تک آئینی بینچ نہ بنے تواگر کوئی آئینی مسئلہ بھی ہوتو مزے کریں کوئی جانے کی جگہ نہیں۔ ہم صرف گپ شپ لگا رہے ہیں۔جو آئین کی کتاب 26ویں ترمیم شامل کرکے آئی ہے وہ فراہم کریں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1میں سوموار کے روز کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے کیپیٹل ویلیو ٹیکس کے معاملہ پر مسز شہلا طارق سہگل، سلطان گوہر، شاہد اقبال، سید طارق سہگل گوہر اعجاز ، زین الحسن شبیراور سید ساویل میکل حسین کی جانب سے وفاق پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر8درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت آئینی بینچ کا تذکرہ۔جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ یہ کیس آئینی بینچ سنے گا ہم ریگولر بنچ سن رہے ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ اس وقت کوئی آئینی بینچ نہیں تو یہ جو غیر آئینی بینچ بیٹھا ہے اسکا کیا کرنا ہے،جب تک آئینی بنچ نہیں بیٹھے گا کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ہم کیا کریں؟ مطلب ہے کہ جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھتا آئینی مقدمات نہیں سنے جائیں گے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کابینچ میں شامل جسٹس عائشہ اے ملک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میڈم آئینی بینچ کاحصہ ہیں، ہم کم ترریگولر بینچ کاحصہ ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ جب تک آئینی بینچ نہ بنے تواگر کوئی آئینی مسئلہ بھی ہوتو مزے کریں کوئی جانے کی جگہ نہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ کیا ابھی ہم یہ کیس سن سکتے ہیں یا نہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ تھوڑا وقت دیں تو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاعدالتی عملے سے کہنا تھا کہ جو آئین کی کتاب 26ویں ترمیم شامل کرکے آئی ہے وہ فراہم کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم اس کیس کو سن بھی لیں تو کوئی ہمیں پوچھ نہیں سکتا، اب بار بار یہ سوال سامنے آہا ہے کیس ریگولر بنچ سنے گا یا آئینی بنچ، اگر ہم آج فیصلہ کردیتے ہیں تو پھر کون ہمارے فیصلے کوکالعدم قراردے گا، نظرثانی بھی ہمارے پاس آئے گی ہم کہیں گے کہ یہ ہمارااختیار ہے، چلیں اس میں کیا پڑنا ہے، ہم کوئی واضح نقطہ نظر نہیں دیتے صرف کیس کی سماعت ملتوی کردیتے ہیں، کیا ہم کیس سن سکتے ہیں کہ نہیں کوئی معاونت وکیل کی جانب سے نہیں آرہی، آئینی مقدمات ریگولر بنچ نہیں سن سکتا وکلا کی طرف سے بھی کوئی معاونت نہیں ارہی ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل 2 اے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی جس میں ابھی وقت لگے گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی کہ یہ کیس آئینی بینچ سنے گا یا ریگولر بینچ۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم آپ کی گزارش پر کوئی نقطہ نظر نہیں دے سکتے اسکو ملتوی کر دیتے ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف گپ شپ لگا رہے ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا کہ سارے حساب کرنے لگے ہیں کچھ وقت لگے گا۔ بعد ازاں بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ۔