ارنود پولے کبھی بھی بحر ہند میں واقع ’آگالیگا‘ نامی اس چھوٹے سے جزیرے کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن اس سال انھوں نے اپنا سامان باندھا اور یہاں سے نکل گئے۔۔۔ ایسا انھوں نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کیا کیونکہ ان کے مطابق ’ان کا گھر عسکریت پسندی کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔‘
کچھ عرصہ پہلے تک آگالیگا میں صرف 350 لوگ رہتے تھے۔ وہ مچھلیاں پکڑتے اور ناریل اگاتے تھے۔ دیگر خورد و نوش کی اشیا سال میں چار بار بحری جہاز کے ذریعے ماریشس کے دارالحکومت سے یہاں پہنچائی جاتی تھیں جو جزیرے سے 1100 کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے۔ ایک چھوٹا سا رن وے طبی ہنگامی حالات کے علاوہ شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا تھا۔
لیکن 2015 میں ماریشس نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس سے انڈیا کو ایک تین ہزار میٹر وسیع رن وے اور ایک بڑی سی نئی جیٹی (ساحل کے قریب ڈھانچہ) بنانے کی اجازت ملی۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان میریٹائم سکیورٹی کے حوالے سے تعاون کا حصہ ہے۔
تاہم کچھ آگالیگن لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ (منصوبہ) ایک مکمل عسکری موجودگی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
پولے ایک 44 سالہ ’ہینڈی مین‘ (گھر کی مرمت کرنے والے) اور موسیقار ہیں۔ انھوں نے اس منصوبے کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے جزیرے سے محبت کرتا ہوں اور میرا جزیرہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن جب اس اڈے کی رونمائی کی گئی تو میں جانتا تھا کہ مجھے یہاں سے جانا پڑے گا۔‘
آگالیگا میں شامل 25 مربع کلومیٹر پر محیط دو چھوٹے جزیرے ہیں جو جنوب مغربی بحر ہند میں واقع ہیں۔ یہ جگہ انڈیا کے لیے سمندری ٹریفک کی نگرانی کے لیے ایک بہترین مقام ہو گا۔ 2019 کی سیٹلائٹ تصاویر کا اس سال جولائی میں لی گئی دیگر تصاویر کے ساتھ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کتنی تبدیلی آئی ہے۔
کھجور کے درختوں کا جیسے ایک قالین ہو جس کے درمیان رن وے کے لیے ایک راستہ بنایا گیا ہو۔ یہ رن وے جزیرے کے شمال میں دو اہم دیہاتوں کے درمیان سے گزرتا ہے، شمال میں ’لا فورچے‘ اور مزید جنوب میں ’وِنگٹ سنک۔‘
آسٹریلیئن نیشنل یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر سیموئیل بیش فیلڈ کے مطابق دو 60 میٹر چوڑی عمارتیں (اڈے کے) ’ٹارمیک‘ اور ‘ایپرن’ (وہ جگہ جہاں ہوائی جہاز پارک ہوتے ہیں یا ان میں ایندھن بھرا جاتا ہے) دیکھی جا سکتی ہیں۔
ان میں سے کم از کم ایک انڈین نیوی کے پی 81 طیارے کے لیے بطور ’ہینگر‘ استعمال ہو سکتا ہے۔
پی81 ایک بوئنگ 737 طیارہ ہے جس میں ممکنہ طور پر آبدوزوں پر حملہ کرنے اور سمندری مواصلات کی نگرانی کے لیے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
جزیرے کے باشندے پہلے ہی رن وے پر اس طیارے کی تصاویر لے چکے ہیں۔
(جزیرے کے) شمال مغرب کی طرف ایک نئی جیٹی بنی ہوئی ہے جس کا کچھ حصہ سمندر میں قائم ہے۔ سیموئیل بیش فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ سمندری سطح پر گشت کرنے والے انڈیا کے بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ آگالیگا کو سامان پہنچانے والے جہاز جیٹی کا استعمال کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جیسے جیسے سیٹلائٹ کی نئی تصاویر دستیاب ہوں گی، ہم بحر ہند کی مواصلات میں آگالیگا کے کردار کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔‘
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز اس سہولت کے لیے ’سرویلنس سٹیشن‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتا ہے۔ ادارے کے مطابق سٹیشن میں ساحل سے نگرانی کرنے والا ریڈار نظام موجود ہو گا جو ماریشس میں کسی اور جگہ انڈیا کے بنائے ہوئے آلات کے جیسا ہو گا۔
انڈین حکومت نے آگالیگا کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا اور بی بی سی کو اپنی ویب سائٹ پر پہلے سے موجود بیانات سے رجوع کرنے کے لیے کہا۔
ان میں سے ایک میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ انڈیا اور ماریشس میریٹائم سکیورٹی میں ’قدرتی شراکت دار‘ ہیں جو بحر ہند میں روایتی اور غیر روایتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔
سنہ 1970 کی دہائی سے دونوں ممالک کے درمیان قریبی دفاعی تعلقات قائم ہیں۔ ماریشس کے قومی سلامتی کے مشیر، اس کے کوسٹ گارڈ کے سربراہ اور پولیس ہیلی کاپٹر سکواڈرن کے سربراہ سبھی انڈین شہری ہیں اور ان تینوں عہدوں پر بالترتیب انڈیا کی بیرونی انٹیلی جنس ایجنسی، نیوی اور فضائیہ کے افسران تعینات ہیں۔
کنگز کالج لندن کے انڈیا انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ دونوں فریق چاہیں گے کہ اس سہولت کو ‘کسی بھی کھلے عام عسکری استعمال کے بجائے صلاحیت سازی کے لیے‘ دیکھا جائے۔
تاہم یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ انڈیا اور اس کے مغربی اتحادی بحر ہند میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے پریشان ہیں۔
اگرچہ کسی بڑے ملک کے لیے چھوٹے اتحادی کی سرزمین پر فوجی چوکی قائم کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن آگالیگا پر تعمیراتی کام سے جزیروں کے کچھ باشندے پریشان ہیں۔
جزائر کے باشندوں کا کہنا ہے کہ متعدد علاقوں بشمول جزیرے کے کچھ کھجور کے درخوتوں سے لیس سفید ریت والے ساحلوں کو پہلے ہی گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔
کچھ افواہیں ہیں جو مسلسل چل رہی ہیں جیسا کہ لا فورچے گاؤں کو انڈین انفراسٹرکچر نگل جائے گا کیونکہ اس نے جڑیں پکڑنا شروع کر دی ہیں، اور یہاں بسے 10 خاندانوں کو زبردستی نقل مکانی کرنی پڑے گی۔
اسوسی ایشن آف فرینڈز آف آگالیگا کے صدر لاول سوپرمانین کہتے ہیں کہ ‘یہ علاقہ مکمل طور پر انڈیا کے لیے محدود کر دیا جائے گا۔’
انھیں خدشہ ہے کہ ’آگالیگا کی کہانی بھی جزائر چھاگوس کی طرح ہو جائے گی۔’ یہی خدشہ 26 سالہ ہینڈی مین بلی ہینری نے بھی ظاہر کیا جو ایک آگالیگن کے بیٹے ہیں اور جن کی والدہ کو جزائر چھاگوس سے نکالا گیا تھا۔
بلی ہینری نے کہا ‘میری ماں نے اپنا جزیرہ [کھو] دیا اور اگلی باری میرے والد کی ہو گی۔’
آگالیگا کے متعدد رہائشی ایسے خاندانوں سے ہیں جو آگالیگا کے مشرق میں دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جزائر چاگوس سے بے دخلی کا شکار ہوئے تھے۔
انھیں اِن حالات کا سامنا تب کرنا پڑا جب برطانیوی حکومت نے 1965 میں چھاگوس جزائر کو برطانوی علاقہ قرار دیا تھا اور امریکہ کو یہاں کے سب سے بڑے جزیرے ڈیئگو گارسیا میں ایک مواصلاتی سٹیشن بنانے کی اجازت دی تھی۔ یہ سٹیشن آہستہ آہستہ ایک مکمل فوجی اڈہ بن گیا۔
بلی ہینری کا کہنا ہے کہ آگالیگا کی تمام اراضی کی مالک حکومت ہے اور یہاں صرف وہی نوکریوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ حکومت حالات کو اس قدر مشکل بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ رہائشی خود یہاں سے چلے جائیں۔
انھوں نے صحت عامہ اور تعلیم کے مسائل، مقامی معیشت میں محدود سرمایہ کاری، ملازمت کے مواقعوں میں کمی اور مقامی لوگوں کے اپنے کاروبار کھولنے پر پابندی جیسے چیلنجز کے بارے میں بتایا۔
ماریشس کی حکومت کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی کو وہاں سے جانے کے لیے نہیں کہا جائے گا اور یہ کہ مقامی لوگوں کو صرفایئر پورٹ اور بندرگاہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ وہ سہولیات ہیں جو ملک کو بحری قزاقی، منشیات کی سمگلنگ اور غیر منظم ماہی گیری پر قابو پانے میں مدد کریں گی۔
ماریشس ان باتوں کی بھی تردید کرتا ہے کہ آگالیگا میں فوجی اڈہ قائم ہے۔ حکومت کے مطابق قومی پولیس اب بھی مکمل کنٹرول میں ہے۔ تاہم یہ ضرور تسلیم کیا ہے کہ انڈیا اُن نئی تنصیبات کی ’دیکھ بھال اور آپریشن‘ میں مدد کرے گا جو انڈین خرچ پر تعمیر کی گئی تھیں۔
ماریشس اور انڈین حکومتوں کا کہنا ہے کہ سمندری اور فضائی آمدورفت میں بہتری جزیروں کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور انھیں غربت سے نکالنے میں مدد دینے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب بھی ہر سال ماریشس کے مرکزی جزیرے کے لیے صرف چار فیریز ہیں اور کوئی مسافر پرواز نہیں ہے۔
اگلیگن باشندوں کا کہنا ہے کہ انھیں ایک نئے انڈین ساختہ ہسپتال میں جانے سے روک دیا گیا ہے حالانکہ ماریشس حکومت نے اپنی پریس ریلیز میں یہاں کہ آپریٹنگ تھیٹرز، ایکسرے مشینوں اور دندان سازی کے آلات کی خوب تعریف کی تھی۔
بلی ہینری کا کہنا ہے کہ ایک لڑکا جو کھانے پکانے کے تیل سے جل گیا تھا اور جسے شمالی جزیرے کے ہیلتھ سنٹر میں میسر علاج سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی، اسے اکتوبر میں یہاں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
اس زخمی لڑکے اور اس کے والدین کو ماریشس کے مرکزی جزیرے لے جایا گیا۔
لاول سوپرامنین کا کہنا ہے کہ لڑکا اب بھی وہاں ہسپتال میں ہے اور یہ کہ اگلی کشتی آگالیگا کے لیے روانہ ہونے تک خاندان مرکزی جزیرے پر ہی رہے گا۔
جب ماریشس حکومت سے جھلسنے والے لڑکے کی حالت زار پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے جواب نہیں دیا۔ انڈین حکومت نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ماریشس کی پارلیمان سے اپنی حالیہ تقریر میں ملک کے وزیر اعظم پراوِند جگناوتھ نے کہا کہ آگالیگا کی سماجی و اقتصادی ترقی ان کی حکومت کی ترجیحات کے ایجنڈے میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
انھوں نے کہا کہ جزیرے کے رہائشیوں کے لیے صحت اور تعلیم، ٹرانسپورٹ روابط اور تفریحی سہولیات کو بہتر بنانے اور ماہی گیری کے شعبے کو ترقی دینے اور ناریل کی ضمنی مصنوعات کے استحصال کو روکنے کے لیے ایک ’ماسٹر پلان‘ تیار کیا گیا تھا۔
لیکن عدم اعتماد اس حقیقت پر مبنی ہے کہ انڈیا اور ماریشس میں سے کسی نے بھی 2015 کے مفاہمت کی یادداشت کی تفصیلات شائع نہیں کی ہیں۔ اس لیے مستقبل کے لیے ان کے منصوبوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
بشکریہ: بی بی سی نیوز اردو