اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کے آئینی بینچ کے حوالہ سے دلچسپ ریمارکس۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بلیغ الزامان چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ توآپ عام عدالت میں پیش ہورہے ہیں، آئینی عدالت میں پیش ہوں گے تووہ آپ کو کھاجائیں گے،
آپ ہماری درست معاونت نہیں کررہے۔ قانون میں نہیں ہے کہ ایک شخص براہ راست بھرتی ہواوردوسراترقی کے زریعہ آئے توسنیارٹی کاتعین کیسے ہوگا۔ کسی فیصلے میں ہیڈ نوٹ کوئی قانون نہیں ہوتا یہ ہم لکھ لکھ کرتھک گئے ہیں، ہیڈ عدالت میں نہیں پڑھتے،عدالت میں فیصلہ پڑھتے ہیں۔ ماضی سے ترقی کے معاملہ پر محکمے اور مدعا علیہ کے وکیل سے معاونت نہ ملنے پر ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل کو کل (جمعہ)کے روز معاونت کے لئے طلب کرتے ہوئے جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کچھ نہیں پتاکسی کوکیا کرنا ہے۔جبکہ سید منصور علی شاہ نے ایک اورکیس دائرہ اختیارنہ ہونے کی بنیاد پر آئینی بینچ کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس آئینی بینچ کے سامنے لگایا جائے،ہمارادائرہ اختیارہی نہیں، یہ ریگولرعدالت ہے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز فائنل اورسپلمنٹری کاز لسٹ میں شامل 7کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نیرانا آفتاب احمد خان، محمد عرفان خالد، شبیرحسین، محمد قیوم قدرت، محمدسہیل اختر، احسان اللہ اور محمد نذیر کی جانب سے چیف سیکرٹری اوردیگر کے توسط سے پنجاب حکومت کے خلاف سنیارٹی کے معاملہ پردائر7درخواستوںپر سماعت کی۔درخواست گزاروں کی جانب سے میاں بلال بشیر بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلیغ الزامان چوہدری پیش ہوئے۔
وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار 2006میں پی ایم ایس افسران بنے، میرے مئوکل براہ راست 18دسمبر2004کوگریڈ16میں تحصیلدار بھرتی ہوئے۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ دومختلف معاملات ہیں۔جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ 2004میں بھرتی ہونے کے بعد 2006میں کیسے ترقی ہوئی، دوسال کے اندر، اندر کیسے ترقی ہوئی،ترقی پانچ سال بعد ہونا تھی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ انٹرسے سنیارٹی اُس کی ہو گی جو اکٹھے بھرتی ہوں، قانون میں نہیں ہے کہ ایک شخص براہ راست بھرتی ہواوردوسراترقی کے زریعہ آئے توسنیارٹی کاتعین کیسے ہوگا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ تحصیلدار سے پی ایم ایس میں ترقی پی ایم ایس رولز2004میں ہے کہ 5سال بعد ترقی ہوگی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ توآپ عام عدالت میں پیش ہورہے ہیں، آئینی عدالت میں پیش ہوں گے تووہ آپ کو کھاجائیںگے،آپ ہماری درست معاونت نہیں کررہے۔
ا س پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہ آپ تیاری کرلیں دوبارہ اس کیس کوتھوڑی دیر بعد سنتے ہیں۔ جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عائشہ اے ملک کاسرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ دوسروں کوترقی دے اوران پر رول لگادیا۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ 2006کے بیچ کودوبارہ زیر غور لانا پڑے گااورسارا کیس دوبارہ کھولنا پڑے گا۔
عدالت نے پرائیویٹ مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔جبکہ بینچ نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا اوردیگر کی جانب سے سنیارٹی اور پروموشن کے معاملہ پر محمد اشفاق، محمداسماعیل، محمد الیاس فہیظ زمان، شہاب علی اور علی حیدر کے خلاف دائر 6درخواستوں پر سماعت کی۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاسرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قانون میں ماضی سے ترقی کیاقانون ہے، اگرکوئی قانون نہیں توہم ایسے ہی گپ شپ لگارہے ہیں، گول مول بات ہورہی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ حکومت کاکیس ہونا چاہیئے کہ ماضی سے ترقی نہیں ہوسکتی، سات سال پہلے مدعاعلیہان کوترقی دے دی۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ مدعاعلیہان کو 2020میں ترقی دی گئی تاہم انہوں نے کہاکہ ہمیں 2013سے ترقی دیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کامدعاعلیہان کے وکیل نورمحمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ ماضی سے ترقی دینے کاتصوردکھائیں، یہ حق کہاںہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کہناتھاکہ مدعاعلیہ کہہ رہے ہیں کہ تین سال بعد مجھے ترقی دی تین سال پہلے ترقی دے کر سارے پیسے بھی دیں۔جسٹس سید منصورعلی کامدعاعلیہان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ کسی فیصلے میں ہیڈ نوٹ کوئی قانون نہیں ہوتا یہ ہم لکھ لکھ کرتھک گئے ہیں، ہیڈ عدالت میںنہیںپڑھتے،عدالت میں فیصلہ پڑھتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ وکیل نے ماضی سے ترقی دینے کے معاملہ پر کچھ نہیںبتایا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کامدعا علیہان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جوچیز آپ سے پوچھتے ہیں اس میں کچھ نہیں ہوتا توپھراگلی کہانی شروع ہوجاتی ہے، میکنزم میں کہاںلکھا ہے کہ ماضی سے ترقی دی جائے گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ قانون پڑھیں تشریح نہ کریں ہمیںانگریزی سمجھ آرہی ہے، جب ڈی پی سی بیٹھے گی توکام چل پڑے گااورجب نہیں بیٹھے گی تونہیںچلے گا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ اگر ترقی حق ہے توپھر نہ ڈی پی سی اورنہ ہی فٹنس کی ضرورت ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ سرکاری وکیل اورنہ ہی مدعاعلیہان کے وکیل نے ماضی سے ترقی دینے کے حوالہ سے سوال کاجواب دیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ کل صبح ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا آکرعدالت کی معاونت کریں، محکمے کے نمائندے کوبھی ساتھ لائیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل (جمعہ)تک ملتو ی کردی۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ کچھ نہیں پتاکسی کوکیا کرنا ہے۔ بینچ نے شمشاد شوکت مرحوم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب، فرید کوٹ ہائوس ، لاہوراوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سابق صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن شہزادشوکت نے پیش ہوکر عدالت سے استدعا کہ وہ گزشتہ روز ہی کیس میں وکیل بنے ہیں تیاری کے لئے وقت دیا جائے۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاشہزادشوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہ توآپ کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔بینچ نے لبرٹی ایگریکلچر اسٹوریج پرائیویٹ لمیٹڈ، کراچی، ابسن سنز پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور، فاطمہ ویجیٹیل آئل ملز پرائیویٹ لمیٹڈ، اوکاڑہ ، لبرٹی کولڈاسٹوریج پرائیویٹ لمیٹڈ، کراچی اور دیگر کی جانب سے سیس کے نفاذ کے معاملہ پر سیکرٹری ایکسائز اینڈٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ ،کراچی اوردیگر کے توسط سے حکومت سندھ کے خلاف دائر13درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے صوفیہ سعید شاہ بطور وکیل پیش ہوئیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاآئینی بینچ کی رکن جسٹس عائشہ اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ کیس ہمارے پاس چھوڑدیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کہناتھاکہ میں یہ کیس سنوںگی۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ یہ کیس آئینی بینچ کے سامنے لگایا جائے،ہمارادائرہ اختیارہی نہیں، یہ ریگولرعدالت ہے۔جبکہ بینچ نے ایم ایس ماریہ ایڈیبل آئل انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ، کراچی، ایم ایس گریب پاک آئل گھی اینڈانڈسٹری پرائیویٹ لمیٹڈ اوردیگر کی جانب سے ٹیکس کے معاملہ پر سیکرٹری ایکسائز اینڈٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کراچی اوردیگر کے توسط سے صوبہ سندھ کے خلاف دائر 9درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کام آپ کا ہے کرنا عدالتوںکوپڑتا ہے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ آپ غلط کام نہ کریں جس کی وجہ سے توہین عدالت کی کاروائی ہو۔ عدالت نے درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔