دنیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ واپسی کو دھیان سے دیکھ رہی ہے، اور بین الاقوامی سطح پر بالخصوص پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ایک احتیاط آمیز امید بھی موجود ہے۔ ٹرمپ کی پہلی مدت میں ان کی خارجہ پالیسی کا ایک منفرد انداز تھا جسے غیر متوقع فیصلے، ”امریکہ سب سے پہلے” کی پالیسی، اور ایک ملی جلی میراث کا سامنا رہا—جس میں سفارتی کامیابیاں اور کشیدگی دونوں شامل تھیں۔ اب ان کی نئی مدت میں عالمی سطح پر یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ علاقائی چیلنجز کا از سر نو مقابلہ کرتے ہوئے قومی ترجیحات اور عالمی مسائل کے درمیان توازن برقرار رکھیں گے۔ پاکستان جیسے ممالک اس بات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں کہ ان کی قیادت علاقائی استحکام، سیکورٹی تعاون، اور معاشی تعلقات پر کیا اثر ڈالے گی۔
پاکستان کے لیے، ٹرمپ کی دوسری مدت میں مواقع اور چیلنجز دونوں موجود ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں سابقہ موقف غیر واضح تھا، تاہم امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس بار ایک زیادہ تعمیری تعلق کی طرف بڑھیں گے۔ ماضی میں، ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے کردار پر سخت موقف اپنایا اور علاقائی استحکام کے لیے پاکستان سے اقدامات کی توقع کی۔ تاہم، کچھ مثبت اشارے بھی ملے، جیسے کہ 2020 میں طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ جس میں پاکستان نے کردار ادا کیا، جس سے افغانستان سے امریکی انخلا ممکن ہوا۔ امن کے ان اقدامات کو امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی اور سیکورٹی تعلقات کی بہتری کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے، جہاں دونوں ممالک کی انسداد دہشت گردی اور استحکام میں مشترکہ دلچسپی دوبارہ سامنے آ سکتی ہے۔
مزید برآں، اقتصادی تعاون کا شعبہ ہے جسے پاکستان ٹرمپ کی نئی مدت میں وسعت دینے کی امید رکھتا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ معاشی روابط کو ترجیح نہیں دی، ان کی پالیسیوں میں زیادہ تر دوطرفہ معاہدوں کی جانب جھکاؤ تھا جس سے ایسے ممالک کو مواقع مل سکتے ہیں جو تعاون پر آمادہ ہوں۔ پاکستان کو امید ہے کہ وہ تجارت اور سرمایہ کاری میں زیادہ سازگار شرائط حاصل کر سکے، خصوصاً زراعت، ٹیکنالوجی، اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں۔ پاکستان کے لیے جو کہ معاشی مشکلات کا شکار ہے، امریکہ کے ساتھ تجارت کو مضبوط بنانا بہت اہم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان امید کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرے گی، جو عالمی جغرافیائی سیاست میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ وہ خطہ ہے جس میں ٹرمپ اور ان کی خارجہ پالیسی ٹیم کی خاص دلچسپی ہے۔ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، ابراہم معاہدے کیے، اور ایران پر سخت پابندیاں لگائیں۔ خطے میں اس کے فیصلوں نے متضاد آرا کو جنم دیا۔ اس بار فلسطینیوں کے معاملے پر ان کا موقف کیا ہوگا، لبنان کی استحکام کی ضرورت، اور ایران کا علاقائی اثر و رسوخ کیسے حل ہوگا، یہ سب معاملات دلچسپی کا مرکز ہیں۔ فلسطینی امید کر رہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ امن کے فروغ میں زیادہ متوازن کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ کے پہلے موقف میں اسرائیل کی حمایت واضح تھی، مگر ان کی میراث میں ابراہم معاہدے شامل ہیں جنہوں نے نئے مواقع پیدا کیے۔ فلسطینی توقع رکھتے ہیں کہ ٹرمپ ایسے فیصلے کریں گے جو فلسطینی خودمختاری اور حقوق کو تسلیم کریں۔
لبنان میں، امید ہے کہ امریکہ ملک کی اقتصادی عدم استحکام، سیاسی بحران اور سماجی مشکلات میں زیادہ مثبت کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے حزب اللہ پر دباؤ ڈالا اور لبنان میں ایرانی اثرات کو محدود کرنے کا سخت موقف اپنایا۔ آگے بڑھتے ہوئے، توقع کی جاتی ہے کہ امریکہ لبنان کو ایک جامع حمایت فراہم کرے گا تاکہ وہاں استحکام برقرار رہے اور فرقہ وارانہ تنازعات کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔
ٹرمپ کی دوبارہ انتخاب سے ایران میں تشویش پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کی پہلی مدت میں امریکہ نے مشترکہ جامع منصوبہ بندی (جے سی پی او اے) سے دستبرداری اختیار کی اور ایران پر ایسی پابندیاں عائد کیں جنہوں نے ایران کی معیشت کو متاثر کیا۔ یہ غیر یقینی ہے کہ آیا ٹرمپ دوبارہ معاہدہ کی طرف بڑھیں گے یا تہران پر مزید دباؤ برقرار رکھیں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ ٹکراؤ کے بجائے مکالمے کو ترجیح دیں گے اور خطے میں استحکام کو ترجیح دیں گے۔
پاکستان اور جنوبی ایشیا کے لیے شاید سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ اپنی پچھلی انتظامیہ کے دوران، ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی، جس پر ملا جلا ردعمل آیا۔ پاکستان کو امید ہے کہ ٹرمپ اپنی تاثیر استعمال کریں گے تاکہ کشمیر کے تنازعے کا منصفانہ اور پائیدار حل نکالا جا سکے، جو کہ دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان تناؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ پہلے بھارت کے قریب رہی، اور اسے خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اگر ٹرمپ ایک زیادہ متوازن موقف اپنانے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ان کی انتظامیہ کشمیر پر بات چیت کو فروغ دے سکتی ہے۔
ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی، عمومی طور پر مضبوط فوجی اتحادوں اور معاشی خود مختاری کی حمایت کرتی ہے۔ تاہم، پارٹی کے قدامت پسند اصول قومی خود مختاری اور دو طرفہ تعلقات پر بھی زور دیتے ہیں، جو اس بار ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ براہ راست تعلقات کو فوقیت دیں تو پاکستان اور دیگر ممالک کو اپنے منفرد اسٹریٹیجک مفادات کو سامنے لانے اور امریکہ کے ساتھ ایک متوازن شراکت داری کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
آخر میں، دنیا ٹرمپ کی واپسی کو امید اور احتیاط کے ساتھ، ملی جلی توقعات کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کے لیے، مضبوط اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات، علاقائی تنازعات میں زیادہ متوازن کردار، اور جنوبی ایشیا میں سفارتی حل کی حمایت کی امیدیں موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں، فلسطینی مسئلے پر منصفانہ رویے، لبنان میں تعمیری کردار اور ایران کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی توقعات ہیں۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرتی ہے تو یہ نئے مواقع کے دروازے کھول سکتی ہے، جو امریکہ اور اس کے عالمی شراکت داروں کے لیے استحکام اور باہمی احترام کی وراثت چھوڑے گی۔
Load/Hide Comments