لاہور(صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ حقِ خودارادیت کے حصول تک کشمیریوں کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
جموں و کشمیر کے 77 ویں یومِ سیاہ کے موقع پر پیغام میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ 27 اکتوبر 1947 کو تقسیمِ ہند کے فارمولے کے برخلاف اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے برعکس ہندوستانی فوج نے جموں و کشمیر میں داخل ہوکر غاصبانہ قبضہ کیا، اسی واقعہ کی مناسبت سے 27 اکتوبر جموں و کشمیر کے عوام کے لیے سیاہ ترین دن ہے ،جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 77 سال سے ہندوستان کے اس قبضہ کی سیاہ رات کے خلاف مسلسل ہر روز، ہر لمحہ اور ہر مرحلہ پر قربانیاں دے کر مذمت، مزاحمت اور ہندوستان سے اپنی نفرت کے اظہار کے ذریعے اس غاصبانہ قبضے کو مسترد کیا ہے ،مسلم دشمنی کی وجہ سے عالمی ادارے جموں و کشمیر میں جاری ہندوستانی فوج کے اس ظلم، جبر، قتل و غارت گری پر جانبدارانہ، متعصبانہ کردار کیساتھ مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے چلے آرہے ہیں،یہ بھی المیہ ہے کہ عالمِ اسلام ملتِ اسلامیہ کے مسائل کے حل کے لئے جرات مندانہ کردار ادا نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوا ہے ،جموں و کشمیر کے 77 ویں یومِ سیاہ کے موقع پر 25 کروڑ پاکستانی عوام اپنے اس غیرمتزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیریوں پر ظلم و جبر کی سیاہ رات کے خاتمہ، حقِ خودارادیت کے حصول تک کشمیریوں کا ساتھ دیتے رہیں گے اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں،حکومتِ پاکستان بِلاتاخیر مسئلہ کشمیر پر قومی کانفرنس بلائے اور تحریکِ آزادی کشمیر کے حوالے سے پائے جانے والے تذبذب، شکوک و شبہات اور سودے بازی کے تاثر کو ختم کرکے پورے عزم اور یکجہتی کیساتھ قومی حکمتِ عملی بنائی جائے ۔
لیاقت بلوچ نے امریکی ایما پر ناجائز اسرائیلی صیہونی ریاست کی طرف سے ایران پر حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ مسلسل پھیلتی، وسیع ہوتی اسرائیلی جارحانہ کارروائیاں پورے خطے کی سلامتی کے لیے شدید خطرات کا باعث ہیں ،اسرائیل غزہ و لبنان پر مسلسل بمباری کرکے نہتے بے یگناہ شہریوں کو قتل کررہا ہے ،سعودی عرب، پاکستان ترکی، ایران، یو اے ای، قطر، اردن اور یمن کو فوری طور پر عالمِ اسلام اور علاقائی امن کو بڑھتے خطرات پر سربراہی اجلاس بلانا چاہئے جس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ، وزرائے دفاع بھی شریک ہوں، تاکہ عالمِ اسلام کی مشترکہ سیاسی، دفاعی حکمت عملی کے لیے مضبوط بنیادوں پر اقدامات طے کیے جاسکیں ۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیلِ نو، جسٹس منصور علی شاہ کا خط، جسٹس فائز عیسیٰ کی رخصتی ریفرنس سے چھ ججز کی غیرحاضری اور اب 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ججوں کی تعداد میں اضافہ کی چہ مگوئیاں اس امر کو عیاں کررہا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالتی اور سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا ،عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی کشمکش نئے خوفناک ٹریک پر آگے بڑھے گی ،عملًا پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ مل کر آزاد عدلیہ کو پھر سے مغلوب کرنے کے کام کریں گے. جماعتِ اسلامی کا موقف درست ثابت ہوا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بدنیتی پر مبنی سیاسی اقدام ہے اور ایسی ترمیم سے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا،حکومت کوئی نئی ترمیم لانے کی بجائے 26 ویں آئینی ترمیم کی واپسی کی راہ اپنائے۔